تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
زبردست سلطنت قوم گال کی تھی‘ جس کا دارالسلطنت طولوز تھا‘ امیر سمح نے جبل البرتات سے گزر کر ناربون پر حملہ کر کے اس شہر کو فتح کر لیا اور تمام ریاست مسلمانوں کے قبضے میں آ گئی‘ اسلامی لشکر کو یہاں سے بہت کچھ مال غنیمت ہاتھ آیا‘ ناربون سے آگے بڑھ کر طولوز پر حملہ کیا گیا‘ بڑی خوں ریز جنگ ہوئی‘ آخر اس شہر کا محاصرہ مسلمانوں نے کر لیا‘ مسلمانوں کی فوج بہت تھوڑی تھی اور عیسائیوں کا لشکر ہر ایک آئندہ لڑائی میں زیادہ ہی برسر مقابلہ آتا تھا‘ شہر طولوز فتح ہی ہونے والا تھا کہ ایک فرمان روا ڈیوک آف اکیوٹین ایک عظیم الشان فوج لے کر پہنچ گیا‘ امیر سمح کے ساتھ جس قدر فوج آئی تھی اس کا ایک حصہ ان کو ناربون وغیرہ مفتوحہ علاقہ میں چھوڑنا پڑا تھا‘ اس لیے ان کے ہمراہ بہت تھوڑے آدمی تھے‘ صحیح تعداد تو اسلامی لشکر کی نہیں بتائی جا سکتی‘ مگر یہ بات یقینی ہے کہ جب فرانسیسیوں کا لشکر عظیم میدان میں آ کر صف آرا ہوا تو امیر سمح نے بجائے اس کہ وہ حواس باختہ ہو جاتے اپنی صفوں کو درست کر کے ایک ہمت بڑھانے اور جوش دلانے والی تقریر کی‘ ادھر پادریوں نے فرانسیسی لشکر کو قتال پر آمادہ کرنے والی تقریریں سنائیں‘ لڑائی شروع ہوئی اور طارق و لرزیق کی لڑائی کا نقشہ ایک مرتبہ پھر جنوبی فرانس میں نمودار ہوا‘ کئی گھنٹے تک تیر و شمشیر اور برچھیوں کی بجلیاں چمکتی رہیں‘ قریب تھا کہ فرانسیسیوں کا لشکر عظیم ان مٹھی بھر مسلمانوں کے مقابلے میں لاشوں کے ڈھیر چھوڑ کر‘ میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور تمام ملک فرانس اسلامی لشکر کے پائوں سے روندا جائے۔ امیر سمح کی شہادت عین اس وقت جب کہ مسلمان عیسائیوں کو پیچھے دھکیل کر آگے بڑھ رہے تھے‘ ایک تیر امیر سمح کے گلے میں آ کر ترازو ہو گیا‘ اپنے امیر کو اس طرح جام شہادت نوش کرتے ہوئے دیکھ کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہو گئے اور جوش شمشیر زنی سرد پڑ گیا‘ مگر پھر بھی وہ اس طرح حواس باختہ نہیں ہوئے جیسی کہ ایسے نازک موقعہ پر توقع ہو سکتی تھی‘ مسلمانوں کی پیش قدمی رک گئی‘ عیسائی یک لخت چیرہ دست ہو گئے‘ مسلمانوں نے فوراً امیر سمح کی جگہ عبدالرحمن غافقی کو اپنا سپہ سالار اور امیر منتخب کر لیا‘ عبدالرحمن غافقی نہایت ہوشیاری اور استقلال کے ساتھ اسلامی لشکر کو لے کر پیچھے ہٹا‘ عیسائیوں کو ہمت نہ ہوئی کہ وہ اسلامی لشکر کا تعاقب کریں میدان جنگ میں ایک تہائی مسلمان شہید ہو چکے تھے‘ باقی دو تہائی کو لے کر عبدالرحمن غافقی پسپا ہوا۔ عبدالرحمن بن عبداللہ غافقی عبدالرحمن غافقی جس شجاعت و بہادری اور احتیاط کے ساتھ اپنے لشکر کو قتل و برباد ہونے سے بچا کر شہر نابون تک لایا ہے اس کی تعریف عام طور پر مورخین نے لکھی ہے۔ جنگ طولوز جس میں امیر سمح شہید ہوئے ۱۰۲ھ میں وقوع پذیر ہوئی‘ میدان طولوز سے نابون تک آتے ہوئے راستے میں عیسائی آبادیوں نے جابجا اس لشکر کو لوٹنا اور قتل کرنا چاہا‘ ان عیسائیوں کا خیال تھا کہ جس طرح ہزیمت خوردہ لشکر کو گنوار لوٹ لیا کرتے ہیں اسی طرح ہم اس کے تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ مگر ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ فرانسیسیوں کی دس گنی جرار فوج بھی اس پر حملہ آور ہونے اور تعاقب کرنے کی جرأت نہ کر سکی تھی‘ چنانچہ راستہ میں کئی جگہ لڑائیاں ہوئیں اور ہر جگہ