تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عبدالرحمن نے نہایت دانائی اور ہوشیاری کے ساتھ اپنے آپ کو امیر ہی کہلایا اور خلافت کا دعویٰ نہیں کیا‘ دس برس کے بعد خطبہ میں اپنا نام داخل کیا‘ عبدالرحمن اس بات کو جانتا تھا کہ ملک اندلس میں بہت سے ایسے مسلمان موجود ہیں جو بنو امیہ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے اور عباسیوں سے محبت رکھتے ہیں اور عام طور پر اسلامی سلطنت کا ایک ہی مرکز سمجھتے ہیں جو مشرق میں موجود ہے‘ اگر امیر عبدالرحمن اپنے آپ کو خلیفہ کہلاتا تو یقیناً اس کے خلاف تمام مسلمان شمشیر بدست ہو جاتے اور عبدالرحمن کو گستاخ و بے ادب قرار دیتے‘ اندلسی مسلمانوں کی اس حالت کو بتدریج اصلاح پذیر کیا گیا‘ اور عبدالرحمن ثالث نے مناسب وقت پر اپنے آپ کو امیر المومنین اور خلیفتہ المسلمین کہلایا۔ ایک اور مؤرخ لکھتا ہے کہ عبدالرحمن کی تقریر نہایت شائستہ اور دل آویز تھی‘ نہایت سنجیدہ معاملہ فہم اور منتظم شخص تھا‘ کسی کام کے کرنے میں جلدی نہیں کرتا تھا‘ لیکن جس کام کا ارادہ کر لیتا‘ پھر اس کو بغیر ختم کیے‘ نہیں چھوڑتا تھا‘ لہو و لعب اور ضرورت سے زیادہ آرام کو اپنے پاس تک نہیں پھٹکنے دیتا تھا سفید لباس اکثر پہنتا تھا‘ حاجت مندوں کو اپنے پاس پہنچنے کے لیے آسانی بہم پہنچانے کی غرض سے دربانوں کو موقوف کر دیا تھا کوئی حاجت مند اگر کھانے کے وقت اپنی درخواست لے کر آ جاتا تو اپنے ساتھ ہی دستر خوان پر بٹھا کر کھانا کھلاتا۔ عبدالرحمن بن معاویہ دنیا کے ان عظیم الشان انسانوں میں ہے‘ جنہوں نے قوموں کے زندہ کرنے‘ سلطنتوں کے بنانے اور روئے زمین کے حالات میں تغیر عظیم پیدا کرنے میں ایسی محیر العقول طاقتوں کا اظہار کیا ہے کہ آسمان شہرت پر ان کے نام ستارہ بن کر چمک رہے اور زندہ جاوید بن گئے۔ عبدالرحمن بن معاویہ کے حالات پر جو اوپر مذکور ہوئے ہیں پھر ایک مرتبہ غور کرو اور سوچو کہ اس نے کیسا غیر معمولی دل و دماغ پایا تھا سب سے بڑھ کر قابل تعریف چیز امیر عبدالرحمن کی سپاہیانہ زندگی تھی‘ کہ مسجد قرطبہ کی تعمیر کے وقت وہ امیر اندلس ہونے پر بھی معمولی مزدوروں کی طرح ان کے ساتھ کام کرنے اور پتھر ڈھونے کو عیب نہیں جانتا تھا۔ ہشام بن عبدالرحمن امیر عبدالرحمن بن معاویہ المعروف بہ عبدالرحمن الداخل اگرچہ اپنے آپ کو امیر ہی کہلاتا رہا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اندلس کا پہلا خلیفہ تھا‘ معنوی طور پر اس کے اندر تمام وہ صفات و شرائط موجود تھے جو ایک خلیفہ کی ذات میں ہونی چاہیں‘ اس کی اولاد میں عبدالرحمن ثالث نے خلیفہ کا لقب اختیار کیا تھا مگر ہم کو چاہیئے کہ اب ہم ہشام اور اس کے جانشینوں کو سلطان یا خلیفہ کے لقب سے یاد کریں۔ ولادت سلطان ہشام بن عبدالرحمن اپنے باپ کے اندلس میں داخل ہونے کے بعد ۱۳۹ھ میں شوال کے مہینے میں پیدا ہوا تھا‘ ہشام کی ماں حلل نامی ام ولد کو اندلس کے سابق امیر یوسف فہری نے عارضی صلح کے وقت امیر عبدالرحمن کی خدمت ہدیۃ پیش کیا تھا‘ عبدالرحمن نے اس کو آزاد کر کے نکاح کیا تھا اور اس کو بہت ہی محبوب رکھتا تھا۔ تخت نشینی ۳۲ یا ۳۳ سال کی عمر میں اپنے باپ کی وصیت کے موافق ۱۷۲ھ میں تخت نشین ہوا‘