تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
’’تمہارا خط ہمارے پاس پہنچا جس میں نفس مطلب تو کم فضول باتیں زیادہ ہیں ہم تم پر فوج کشی کرنے والے ہیں۔۔۔۔۔ والسلام‘‘ اعصم نے یہ جواب مصر کی جانب روانہ کر کے فوج کو تیاری کا حکم دیا اور خود فوج لے کر مصر کی طرف روانہ ہوا۔ اور حدود مصر میں داخل ہو کر مقام عین شمس میں قیام کیا۔ یہاں تمام فوجیں قرامطہ کی آ آ کر جمع ہو گئیں۔ حسان بن جراح طائی امیر عرب بھی طے کا بہت بڑا گروہ لے کر اعصم کے پاس پہنچ گیا۔ اعصم و حسان نے باہم مشورہ کر کے اپنی فوج کے دستوں کو ملک مصر کے قصبوں کی تاخت و تاراج کے لیے پھیلا دیا۔ اور اس طرح مصر میں قتل و غارت اور خونریزی کا بازار گرم ہو گیا۔ معز کو قرامطہ کی کثرت فوج سے بڑا خوف پیدا ہوا۔ قرامطہ نے بہت جلد قاہرہ پر حملہ کیا۔ معز نے قرامطہ کی رفتار ترقی دیکھ کر یہ تدبیر کی کہ۔ حسان بن جراح سے پیام سلام جاری کر کے اس سے وعدہ کیا کہ ہم ایک لاکھ دینار بطور رشوت آپ کی نذر کرنے پر تیار ہیں بشر طیکہ آپ اعصم کو تنہا چھوڑ کر میدان سے اپنی فوجوں کو واپس لے جائیں۔ چنانچہ حسان اس رشوت کے قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ قرار داد کے موافق جب کہ معز اپنی فوجیں لے کر میدان میں نکلا اور قرامطہ پر حملہ کیا۔ یعنی معرکہ جنگ گرم ہوتے ہی مع اپنی فوج کے میدان چھوڑ دیا۔ حسان اور اس کی فوج کے بھاگنے سے اعصم اور اس کی فوج کا دل ٹوٹ گیا۔ مگر تاہم انہوں نے جم کر مقابلہ کیا۔ اور بالآخر شکست کھا کر بھاگے۔ قریباً ڈیڑھ ہزار قرامطہ گرفتار ہوئے۔ معز نے فوراً اپنے سپہ سالار ابو محمود کو دس ہزار فوج دے کر قرامطہ کے تعاقب پر مامور کیا۔ چنانچہ ابو محمود نے ان کو کسی جگہ ٹھہرنے نہیں دیا۔ اور حدود مصر سے نکال کر احساء کی طرف چلے جانے پر مجبور کر دیا۔ دمشق پر قبضہ اس فتح کے بعد معز نے قرامطہ کے قیدیوں کو قتل کرا دیا۔ اور دمشق کی حکومت پر ظالم بن موہوب عقیلی کو نامزد کر کے اس طرف روانہ کیا۔ ظالم نے دمشق پہنچ کر قرامطہ کے عامل کو گرفتار کر کے مصر بھیج دیا۔ جہاں وہ جیل خانہ میں قید کر دیا گیا۔ ۳۶۴ھ تک دمشق پر دولت عبیدیہ کا پرچم لہرایا۔ اسی سال کے ایام حج میں مکہ و مدینہ کے لوگوں نے بھی مجبوراً معز کی حکومت تسلیم کی اور اس کے نام کا خطبہ وہاں پڑھا گیا۔ اہل دمشق عبیدیوں کی حکومت سے خوش نہ تھے۔ چنانچہ ۳۶۴ھ کے آخر اور ۳۶۵ھ کے شروع میں افتگین نے جو عزالدولہ بن بویہ کے خدام میں سے تھا۔ دمشق پر قبضہ کر کے معز کے عامل کو وہاں سے نکال دیا۔ اہل دمشق سب افتگین کی آمد سے بہت خوش ہوئے۔ معز کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے افتگین کو لکھا۔ تم دمشق پر حکومت کرتے رہو اور میں تمہارے پاس سند امارت بھیجے دیتا ہوں۔ میرے نام کا خطبہ پڑھو۔ اور خلیفہ بغداد سے کوئی تعلق نہ رکھو۔ افتگین نے معز کی اس سفارت کو ناکام واپس کر دیا۔ اور دمشق میں خلیفہ بغداد کے نام کا خطبہ بدستور جاری رہا۔ اور معز کی حکومت کے تمام علامات کو مٹا دیا گیا۔ معز یہ سن کر سخت طیش میں آیا اور خود فوج لے کر قاہرہ سے دمشق کی جانب روانہ ہوا۔ وفات ابھی مقام بلبیس ہی میں پہنچا تھا کہ ۱۵ ربیع الاول ۳۶۵ھ کو اس کے لیے پیغام مرگ آ پہنچا۔ اور ۴۵ سال ۶ مہینے کی عمر میں اپنی حکومت کے تیئیسویں سال فوت ہوا۔ یہ