تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شروع ہوئی اور عہد امارت یعنی اندلس کی اسلامی حکومت کا پہلا دور ختم ہو گیا۔ اسلامی حکومت کے دور اول پر ایک نظر اندلس کا ملک مرکز خلافت یعنی دمشق سے بہت زیادہ فاصلہ پر واقع تھا‘ اندلس تک پہنچنے کے لیے مسلمانوں کو قبطیوں‘ بربریوں وغیرہ کی کئی قوموں کو زیر کرنا پڑا تھا‘ مہینوں میں دربار خلافت کا کوئی حکم اندلس پہنچتا اور اندلس کا کوئی پیغام دربار خلافت تک آتا تھا‘ اندلس جس زمانہ میں فتح ہوا ہے اس زمانے میں دربار خلافت اور مسلمانوں کے نامور سپہ سالاروں اور مدبروں کی توجہ خانگی جھگڑوں میں بہت کچھ صرف ہو رہی تھی۔ عراق و شام و ایران کے صوبوں نے مرکز خلافت کی توجہ کو اپنی طرف زیادہ مبذول کر رکھا تھا‘ اس لیے اندلس کی طرف کوئی خصوصی توجہ کبھی مبذول نہ ہو سکی۔ اندلس عام طور پر گورنر افریقہ ہی کے ماتحت رہا‘ مگر چونکہ اندلس کی سرسبزی و شادابی اور خوش سوادی کی شہرت عام طور پر ممالک اسلامیہ میں ہو گئی تھی اس لیے فتح اندلس کے بعد اندلس میں وہ لوگ جن کو حجاز و شام و عراق میں کوئی اہم خدمت سپرد نہ تھی‘ اندلس چلے گئے اور برابر جا کر وہاں آباد ہوتے گئے‘ ان نو وارد عربوں کو اندلس میں ایک فاتح قوم کی حیثیت سے عزت و تکریم کے ساتھ دیکھا جاتا تھا اور ان کو معزز عہدے بھی بہ آسانی مل جاتے تھے‘ اس لیے جو گیا وہیں کا ہو رہا‘ افریقہ کے بربری قبائل شروع ہی میں زیادہ پہنچ گئے تھے‘ اور بعد میں بھی وہاں جاتے اور آباد ہوتے رہے‘ لہٰذا اندلس چند روز میں مسلمانوں کی ایک نو آبادی بن گیا‘ عیسائی لوگ جنھوں نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی تھی‘ اس ملک کے قدیم باشندے تھے جن میں یہودیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی‘ اس طرح اندلس کی مخلوط آبادی میں مختلف عناصر شامل تھے‘ پچاس سال کے عرصہ میں بیسیوں حاکم تبدیل ہوئے‘ حکام کے اس جلد جلد تغیر و تبدل کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانان اندلس کے دلوں میں آزادی و خود سری بھی قائم رہی اور شان جمہوریت برابر ترقی کرتی ہوئی نظر آئی‘ عیسائی آبادی کو کسی وقت بھی کوئی آزار نہیں پہنچا‘ ان کے لیے صرف اقرار اطاعت ہی ہر قسم کے مصائب سے نجات کا باعث ہو گیا اور ان کو اقتصادی و علمی ترقیات کا خوب موقعہ ملتا رہا۔ اول اول مسلمانوں میں فتوحات کا جوش غالب رہا اور وہ ملک فرانس کے مرکز تک فاتحانہ پہنچ گئے‘ ابھی اسلامی حکومت کو قائم ہوئے کچھ زیادہ دن نہ گذرے تھے کہ خانہ جنگیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ ان خانہ جنگیوں نے مسلمانوں کی فتوحات کو روک دیا‘ اور فرانس کے ان عیسائیوں کو جو مسلمانوں کی حملہ آوری کے خوف سے ترساں و لرزاں تھے‘ سوچنے سمجھنے اور اپنی حالت پر غور کرنے کا موقعہ مل گیا‘ اس پچاس سالہ دور حکومت میں مختلف قبیلوں‘ مختلف قابلیتوں اور مختلف دل و دماغ کے لوگ اندلس کے امیر و فرماں روا ہوتے رہے‘ تاہم اندلس کی آبادی‘ سر سبزی اور علوم و فنون میں بہت کچھ ترقیات ہوئیں‘ سب سے بڑھ کر مسلمانوں کا وجود اور ان کا اعلیٰ نمونہ ہی باشندگان اندلس کے لیے کافی تھا مگر اس سے بھی بڑھ کر رعایائے اندلس کو یہ فائدہ پہنچا کہ فاتحین نے مفتوحین کی عورتوں سے شادیاں کرنی شروع کر دیں‘ جب مسلمانوں کے گھر عیسائی عورتوں سے آباد ہو گئے تو وہ ذلت و حقارت کا خیال جو عیسائی مفتوحین کی نسبت مسلم فاتحین کے دلوں میں پیدا ہونا چاہیئے تھا خود بخود معدوم ہو گیا‘ مسلمانوں کو عیسائیوں سے ہمدردی پیدا ہو گئی اور وہ ان کو تعلیم و تربیت اور اعلیٰ