تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلاطین تسلیم کرتے اور اس کے احکام کو مانتے تھے۔ مغلوں کی سلطنت چین سے لے کر یورپ تک پھیلی ہوئی تھی اسلامی سلطنت بہت ہی ضعیف حالت میں تھی۔ لہٰذا عیسائی‘ مجوسی اور یہودی مغلوں کے دربار میں رسوخ حاصل کر کے اسلام اور مسلمانوں سے ان کو متنفر کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ اباقا خان ابن ہلاکو خان نے خراسان سے قویلا خان کی خدمت میں پیغام بھیجا۔ کہ مجھ کو یہودیوں اور مجوسیوں نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کی کتاب قرآن مجید میں لکھا ہے کہ مشرکوں کو جہاں پائو قتل کر دو۔ آپ کا اس تعلیم کے متعلق کیا خیال ہے۔ یعنی اگر مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ہم کو جہاں پائیں قتل کریں۔ تو اس حالت میں مسلمانوں کی قوم کا دنیا میں باقی رہنا اندیشہ سے خالی نہیں۔ قویلا خان نے اس عرضداشت کو پڑھ کر بعض مسلمان علماء کو بلایا اور پوچھا کہ کیا قرآن مجید میں ایسا حکم موجود ہے؟ انہوں نے کہا کہ ’’ہاں یہ حکم موجود ہے‘‘۔ قویلا خان نے کہا پھر تم ہم کو قتل کیوں نہیں کرتے انہوں نے کہا کہ ہم قوت نہیں رکھتے۔ جب قوت و قدرت پائیں گے‘ تم کو قتل کریں گے۔ قویلا خان نے کہا کہ اب چونکہ ہم قدرت رکھتے ہیں۔ لہٰذا ہم کو چاہیئے کہ تمہیں قتل کریں۔ یہ کہہ کر ان علماء کو قتل کرا دیا۔ اور حکم جاری کیا کہ مسلمانوں کو چہاں پائو قتل کرو۔ یہ سن کر مولانا بدر الدین بیہقی اور مولانا حمید الدین سمر قندی قویلا کے دربار میں پہنچے اور کہا کہ آپ نے مسلمانوں کے قتل عام کا حکم کیوں جاری کیا۔ قویلا خان نے کہا کہ اقتلو المشرکین ’’کا کیا مطلب ہے؟ ان دونوں عالموں نے کہا۔ کہ عرب کے بت پرست جو مسلمانوں کے قتل پر ہمہ تن آمادہ تھے۔ ان کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر اور صحابہ کرام کو حکم دیا تھا کہ اپنی حفاظت کے لیے ان کو قتل کرو۔ لیکن یہ حکم تمہارے لیے تو نہیں ہے۔ کیونکہ تم تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل ہو اور اپنے فرامین کی پیشانیوں پر اللہ کا نام ہیشہ لکھتے ہو۔ یہ سنتے ہی قویلہ خان بے حد مسرور ہوا اور اسی وقت حکم صادر کیا کہ میرا پہلا حکم جو مسلمانوں کے قتل کی نسبت جاری ہوا ہے۔ منسوخ سمجھا جائے۔ اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مغلوں کی حالت مذہب کے مقابلے میں کس قدر نازک اور خظرناک تھی۔ جوں جوں ان میں تہذیب اور دماغی نشوونما نے ترقی کی وہ مذہب اسلام سے واقف ۱؎ سیام و برھما سے مراد برما‘ تھائی لینڈ کا علاقہ ہے۔ ہوتے اور اس کو قبول کرتے گئے۔ مغلوں کو اسلام سے روکنے کے لیے تمام دوسرے مذاہب کے پیروئوں نے خوب کوششیں کیں۔ مگر چونکہ مغل خالی الذہن تھے۔ اور ان کی نگاہ ہیں ہر ایک مذہب کا مرتبہ مساوی تھا۔ لہٰذا تحقیق کے معاملے میں وہ زیادہ دھوکا نہیں کھا سکتے تھے اسی لیے ان کے سمجھ دار اور شریف طبقہ نے اسلام ہی کو قابل قبول مذہب پایا۔ قویلا خان کی موت قویلا خان ۷۳ سال کی عمر اور ۳۵ سال کی سلطنت کے بعد فوت ہوا اس کی جگہ اس کا پوتا تیمور خان ملک چین میں تخت نشین ہوا۔ اس کے عہد میں انتظام سلطنت درہم برہم ہو گیا۔ ۷۰۰ھ میں قاآن تیمور خان فوت ہوا۔ اس کے بعد بھی اس خاندان کے چند شخصوں نے برائے نام حکومت کی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تیمور قاآن کے وقت سے قویلا خان کے خاندان کی بادشاہ رخصت ہو گئی تھی۔ اب ہم کو ہلاکو خان ابن تولی خان کی طرف متوجہ