تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلطان فاتح جس سال ایڈریا نوپل میں اپنے باپ کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا اسی سال ہندوستان میں سلطان بہلول لودی تخت نشین ہوا تھا بہلول لودی اور سلطان فاتح دونوں ہم عصر تھے‘ بہلول لودی نے سلطان فاتح کی وفات کے بعد چند سال تک ہندوستان میں حکومت کی‘ کشمیر کا مشہور علم دوست اور روشن خیال بادشاہ زین العابدین بھی سلطان فاتح کا ہم عصر تھا مگر وہ کئی سال پہلے فوت ہو چکا تھا‘ اسی سال یعنی ۵ صفر ۸۸۶ھ کو کو ملک دکن میں التجار خواجہ جہاں محمود گاوان وزیر سلطان محمد شاہ بہمنی مقتول ہوا۔ سلطان فاتح کی وفات سے پورے ۱۱ سال بعد یعنی یکم ربیع الاول ۸۹۷ھ کو اندلس میں اسلامی حکومت کا چراغ گل ہوا اور غرناطہ پر عیسائیوں نے قبضہ پایا‘ یوں سمجھنا چاہیے کہ جب سلطان فاتح کا انتقال ہوا ہے تو اندلس میں اسلامی حکومت دم توڑ رہی تھی‘ کاش سلطان فاتح اور چند سال زندہ رہتا اور اٹلی کا ملک فتح ہو کر سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو جاتا تو پھر یقیناً عیسائیوں کو یہ موقعہ نہیں مل سکتا تھا کہ وہ غرناطہ کی اسلامی سلطنت کا نام و نشان مٹا سکتے بلکہ غرناطہ کی اسلامی سلطنت جو دم بہ دم کمزور ہوتی چلی جاتی تھی عثمانیہ سلطنت سے امداد پا کر یکایک تمام جزیرہ نمائے اسپین پر چھا جاتی اور پھر تمام براعظم یورپ اسلامی جھنڈے کے سائے میں ہوتا غرض کہ سلطان فاتح کی وفات عالم اسلام کے لیے مصیبت عظمیٰ تھی۔ ( انا للٰہ وانا الیہ راجعون ) سلطان محمد خان ثانی کے عہد حکومت پر تبصرہ سلطان محمد خان ثانی فاتح قسطنطنیہ کا عہد حکومت مسلسل جنگ و پیکار کے ہنگاموں سے پر ہے اس نے اپنے عہد سلطنت میں بارہ سلطنتیں اور ریاستیں اور دو سو سے زیادہ شہر و قلعے فتح کر کے عثمانیہ سلطنت میں شامل کئے‘ سلطان فاتح کے عہد سلطنت میں آٹھ لاکھ مسلمان سپاہی شہید ہوئے مگر اس کے باقاعدہ فوج کی تعداد لاکھ سوا لاکھ سے زیادہ کبھی نہیں ہوئی اس نے ینگ چری یعنی فوج جان نثار کی ترتیب و تنظیم کی طرف بھی خصوصی توجہ مبذول کی جو سلطان کی باڈی گارڈ کی فوج کہلاتی تھی اور اس کی تعداد عموماً بارہ ہزار کے قریب ہوتی تھی اس نے ایسے فوانین جاری کیے‘ جس سے ہر قسم کی بد نظمی فوجی اور انتظامی محکموں سے دور ہو گئی‘ سلطان فاتح نے جو قوانین جاری کئے اس سے سلطنت عثمانیہ کو بہت نفع پہنچا‘ ایک ایسے سلطان سے جس کا تمام عہد حکومت لڑائیوں اور چڑھائیوں میں گذرا ہو ہرگز یہ توقع نہیں ہو سکتی تھی کہ ایک اعلیٰ درجہ کا مقنن بھی ہو گا اس نے اپنے دربار میں وزراء سپہ سالار پیش کار وغیرہ اراکین سلطنت کے ساتھ علماء دین کی ایک جماعت کو لازمی قرار دے کر ان کا مرتبہ اراکین سلطنت میں سب سے بالا قرار دیا۔ تمام ممالک محروسہ میں شہروں‘ قصبوں اور گائوں کے اندر مدرسے جاری کئے‘ ان مدارس کے تمام مصارف سلطنت کے خزانے سے پورے کیے جاتے تھے ان مدرسوں کا نصاب تعلیم بھی خود سلطان فاتح نے تجویز و مقرر کیا ہر مدرسے میں باقاعدہ امتحان ہوتے تھے اور کامیاب طلباء کو سندیں دی جاتی تھیں ان سندوں کے ذریعہ سے ہر شخص کی قابلیت کا اندازہ کیا جاتا تھا اور اس کی قابلیت کے موافق ہی اس کو نوکری یا جاگیر دی جاتی تھی‘ نصاب تعلیم میں تمام ضروری اور دین و دنیا کے لیے مفید و نفع رساں علوم شامل تھے‘ سلطان محمد خان خود ایک زبردست اور جید عالم تھا‘ قرآن و حدیث اور تاریخ و سیر نیز ریاضی و طبیعات میں اس کو دست گاہ کامل حاصل تھی‘ اسی لیے اس