تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جرأت ہو گئی تھی کہ وہ بغاوت پر آمادہ ہو جائیں مگر ان کو بہت جلد معلوم ہو گیا کہ مسلمانوں کو اندلس سے نکالنا آسان کام نہیں ہے ساتھ ہی ان کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ نئی اسلامی حکومت پرانی گاتھ حکومت سے بہ درجہا بہتر اور اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی ایک رحمت ہے۔ مذہبی آزادی مسلمانوں نے سب سے پہلے مذہبی آزادی کا اعلان کیا تھا اور عیسائیوں کو اپنے معاملات مذہبی و دنیوی میں ہر قسم کی آزادی عطا کر دی تھی بشرطیکہ وہ اسلام اور حکومت اسلامیہ سے متعرض نہ ہوں‘ اب امیر عبدالعزیز نے اسی سلسلہ میں اعلان کیا کہ جو غلام اسلام قبول کر لے گا وہ مسلمان ہوتے ہی اپنے غیر مسلم آقا کی غلامی و قید سے آزاد سمجھا جائے گا‘ عیسائیوں کے پاس غلاموں کی بڑی تعداد تھی اور وہ ان غلاموں سے اس طرح خدمات لیتے تھے جیسے چوپایوں سے خدمات لی جاتی ہیں‘ امیر عبدالعزیز کے اس اعلان کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہزارہا غلاموں نے آزادی حاصل کرنی شروع کی اور انسانی حریت سے بہرہ اندوز ہونے لگے‘ اس طرح نوع انسان کی ایک بہت بڑی خدمت انجام دی گئی اور ساتھ ہی قلت تعداد کی شکایت بھی مسلمانوں کو نہ رہی۔ امیر عبدالعزیز نے شاہ لرزیق کی بیوہ ایجیلونا سے خود شادی کی اور اس کو اپنے عیسائی مذہب پر قائم رہنے دیا‘ امیر کی تقلید میں دوسرے مسلمانوں نے بھی عیسائی عورتوں سے شادیاں کرنی شروع کر دیں‘ شہروں کے ان مکانات میں جو لڑائیوں میں عیسائیوں کے مفرور و مقتول ہونے سے خالی اور ویران ہو گئے تھے مسلمانوں نے اقامت اختیار کی اور عیسائیوں کے ساتھ مل کر شہروں اور قصبوں میں رہنے سہنے لگے‘ امیر عبدالعزیز نے یہی نہیں کہ عیسائیوں کو مذہبی آزادی عطا کی‘ بلکہ عیسائیوں کو شہروں اور قصبوں کا ناظم بھی مقرر کیا‘ تدمیر سابق سپہ سالار لرزیق کو صوبہ مرسیہ حکومت میں پہلے ہی دے دیا تھا‘ عبدالعزیز کی عیسائی بیوی ایجیلونا نے جو ام عاصم بھی کہلاتی تھی بہت جلد امیر عبدالعزیز کے مزاج پر حاوی ہو کر امور سلطنت میں دخل دینا شروع کر دیا‘ یہ بات عربی سرداروں کو گراں گزرتی تھی‘ مگر وہ اپنے امیر کی اطاعت کو ضروری سمجھتے تھے اور مغلوب و محکوم عیسائیوں کو اپنا ہم رتبہ اور ہمسر دیکھ کر کچھ نہ کہہ سکتے تھے۔ انہیں حالات میں خبر پہنچی کہ نئے خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے موسیٰ بن نصیر کو خراج کے بقایا کے مطالعے میں ماخوذ کیا ہے اور ان جدید ملکی فتوحات کی کوئی قدر نہیں کی‘ اس خبر کا اثر عبدالعزیز کے دل پر جو کچھ ہوا ہو گا ظاہر ہے‘ مگر وہ خلیفہ کے خلاف کوئی لفظ زبان سے نہیں نکال سکتا‘ ایجلیونا اور دوسرے عیسائی اہل کاروں نے اس حالت سے فائدہ اٹھانے میں کمی نہیں کی اور عبدالعزیز کی ذات کے ساتھ ان کی محبت و ہمدردی نے ترقی کی۔ عبدالعزیز کو چونکہ اپنے باپ کی خبر سن کر سخت صدمہ پہنچا تھا‘ لہٰذا وہ ایجیلونا کے ذریعہ عیسائیوں کے طاقتور بنانے اور خلیفۂ دمشق کی حکومت سے اندلس کو آزاد کرنے کی تدابیر میں مصروف ہو گیا‘ امیر عبدالعزیز نے خلیفہ سلیمان کو اپنی طرف سے غافل رکھنے کے لیے اندلس کے خراج کی ایک معقول رقم اور تحف و ہدایا دمشق کی جانب روانہ کئے۔ خلیفہ کو امیر عبدالعزیز کے منصوبوں کا علم اپنے پرچہ نویسوں کے ذریعہ ہو چکا تھا‘