تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
موجود تھا‘ لہٰذا اہل اندلس اپنے حکمرانوں سے متاثر ہوئے اور یہ چیزیں ان میں موجود ہو گئیں۔ اس کے بعد رومیوں کی حکومت میں عیش و نشاط کے رواج نے خوب ترقی کی گاتھ حکومت اگرچہ خود اپنے ساتھ سپاہیانہ اور جنگ جویانہ خصائل لائی تھی‘ لیکن اہل ملک کے اثر نے حاکموں کو چند روز کے بعد اپنے رنگ میں تبدیل کر لیا‘ چونکہ گاتھ خود اپنا کوئی تمدن‘ اخلاق اور اعلیٰ معاشرت نہ رکھتے تھے‘ لہٰذا وہ جب اہل اندلس سے متاثر ہوئے تو عیش و نشاط سے بھی بے بہرہ نہ رہے‘ بہرحال اندلس بہت سی تہذیبوں کا مجموعہ تھا‘ ساتھ ہی ساتھ وہ ہر قسم کی ترقیات اور اس زمانہ کے علوم سے بے بہرہ نہ تھا‘ مذہب عیسوی کے رواج اور نشوونما نے بھی اپنا کافی اثر اس ملک پر ڈالا تھا۔ ۷۰۰ء کے بعد گاتھ حکومت کا بھی اس ملک میں خاتمہ ہو گیا اور ایک مشرقی قوم نے ایرانیوں رومیوں‘ شامیوں‘ مصریوں اور یونانیوں کی حکومتوں ہی کو نہیں بلکہ ان ملکوں کی مشہور تہذیبوں اور مذہبوں کو بھی پامال کرتے ہوئے اس ملک میں داخل ہو کر بت پرستی اور عیسویت کی جگہ توحید کا علم بلند کیا اور اسلامی حکومت قائم کی جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ گاتھ حکومت کا خاتمہ گاتھ سلطنت میں امتداد زمانہ کے ساتھ ہی ساتھ مذہبیت ترقی کرتی گئی‘ وہاں علیحدہ مذہبی مرکز یعنی چرچ قائم تھا‘ قانون سلطنت میں عیسوی تنگ دلی خوب داخل ہوگئی تھی‘ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اندلس کے یہودی دم بہ دم ذلیل ہوتے گئے‘ یہودیوں کو عیسائی اپنا غلام سمجھتے تھے‘ ان کی جائیدادیں زبردستی چھین لی جاتی تھیں‘ ان سے ہر قسم کی خدمت لی جاتی تھی اور ان کا مرتبہ حقوق کے اعتبار سے چوپایوں کے قریب پہنچا دیا گیا تھا۔ حالانکہ گاتھوں کی حکومت کے ابتدائی زمانہ میں یہودیوں کی ایسی ذلیل و مستقیم حالت نہ تھی‘ بت پرستی کے تمام اوہام باطلہ اندلس کے عیسائیوں میں موجود تھے‘ تہذیب و شائستگی‘ علوم و فنون اور تجارت کے اعتبار سے یہودیوں کو عیسائیوں پر فضیلت حاصل تھی‘ عیسائی عام طور پر عیش پسند اور تن آسان تھے‘ مگر یہودیوں میں جفاکشی موجود تھی‘ چونکہ یہودی تعداد میں کم تھے اور حکومت بھی عیسائیوں کی تھی‘ لہٰذا وہ اپنی نجات کے لیے کوئی کوشش نہیں کر سکتے تھے۔ پادری لوگ معاملات سلطنت میں اس قدر زیادہ دخیل ہو گئے تھے کہ بادشاہ ان کے خلاف کوئی کام کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا‘ بڑی بڑی جاگیریں اور زرخیز علاقے پادریوں کے قبضے میں تھے‘ خود پادریوں کے مکان پری خانے بنے ہوئے تھے‘ عیش و عشرت کے تمام سامان اور بدمستیوں کے تمام نظارے پادریوں کی مجلسوں میں دیکھے جاتے تھے‘ لیکن کسی کو یہ مجال نہ تھی کہ ان کے مذہبی اقتدار کا مقابلہ کر سکے‘ پادریوں کے فتوے بڑے بڑے عالی جاہ اور صاحب سطوت لوگوں کو سرنگوں کر سکتے تھے‘ ایک ایک پادری کے پاس سو سو اور دو دو سو بربری غلاموں کا موجود ہونا تو معمولی بات تھی ان کے احکام کی کہیں اپیل نہ ہو سکتی تھی‘ گاتھ سلطنت کا دارالحکومت طیطلہ تھا‘ طیطلہ میں اسقف اعظم (یا لاٹ پادری) جو چرچ ہسپانیہ کا صدر اعظم تھا‘ رہتا تھا‘ اسقف اعظم کے حقوق میں یہاں تک ترقی ہو چکی تھی کہ وہ بادشاہ کی معزولی کا فرمان بھی صادر کر سکتا تھا‘ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اندلس میں خالص عیسوی حکومت قائم کی۔