تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تمام حالات سے اس کو اطلاع دے کر عباس کی بیخ کنی کی درخواست کی چنانچہ صالح بن زریک فوجیں فراہم کر کے قاہرہ کی طرف روانہ ہوا۔ عباس یہ دیکھ کر کہ اہل قاہرہ بھی میرے مخالف ہو گئے ہیں قاہرہ سے اپنے بیٹے نصیر اور اپنے دوست اسامہ بن منقذ کو ہمراہ لے کر اپنی خاص جمعیت کے ساتھ شام و عراق کے قصد سے روانہ ہوا۔ اثنائے راہ میں عیسائیوں سے مقابلہ ہو گیا۔ لڑائی میں عباس کام آیا۔ نصیر گرفتار ہوا۔ اور اسامہ بچ کر نکل گیا۔ اور ملک شام میں پہنچ گیا اسامہ کے نکل جانے کے بعد صالح قاہرہ میں بماہ ربیع الثانی ۵۵۹ھ پہنچا۔ نصیر کے مکان میں سے ظافر کی لاش کو کھود کر نکالا۔ اور شاہی قبرستان میں دفن کیا۔ اور ظافر کے بیٹے فائز کی بیعت کی فائز نے اس کو ’’الملک الطالح‘‘ کا خطاب دیا۔ فائز بن ظافر عبیدی صالح نے وزیر السلطنت ہو کر امور سلطنت کا بندوبست شروع کیا۔ اس کے بعد عیسائیوں سے خط و کتابت کر کے نصیر بن عباس کو زر معاوضہ دے کر حاصل کیا۔ جب نصیر کو عیسائیوں نے روپیہ لے کر قاہرہ پہنچا دیا۔ تو صالح نے اس کو قتل کر کے اس کی لاش کو منظر عام پر لٹکا دیا۔ صالح امامیہ مذہب کا سختی سے پابند اور دولت عبیدیہ کا بڑا خیر خواہ تھا۔ اس نے نصیر کے قتل سے فارغ ہو کر ان سرکش سرداروں کی طرف توجہ مبذول کی جو مزاحمت و مخالفت کی جرأت رکھتے تھے ان میں دو سردار خاص طور پر قابل توجہ تھے۔ ایک تاج الملوک قائماز دوسرا ابن غالب‘ ان دونوں کی گرفتاری پر صالح نے فوجوں اور سرداروں کو مامور کیا۔ یہ دونوں قبل از وقت واقف ہو کر مصر سے فرار ہو گئے۔ ان کے مکانات لوٹ لیے گئے۔ یہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر دوسرے تمام سردار بھی سہم گئے اور اطاعت و فرماں برداری کی گردنیں سب نے جھکا دیں۔ صالح نے قصر سلطنت کے دربان۔ خدام اور تمام آدمی اپنے آوردے مقرر کیے اور پرانے آدمیوں کو ہٹا دیا۔ اس کے بعد تمام معاملات پر حاوی و مستولی ہونے کے بعد وہ قصر سلطانی کا قیمتی سامان بھی اپنے مکان میں لے آیا۔ فائز عبیدی کی پھوپھی نے صالح کے اقتدار کو حد سے زیادہ بڑھتا ہوا دیکھ کر صالح کی بیخ کنی اور قتل کی تدبیریں سوچنی ضروری سمجھیں۔ صالح کو اس کا حال معلوم ہو گیا۔ اس نے خود قصر سلطنت میں جا کر فائز کی پھوپھی کو قتل کرا دیا۔ جس سال فائز تخت حکومت پر بٹھایا گیا ہے اسی سال الملک العادل سلطان نور الدین محمود زنگی نے دمشق کو بنو تتش کے قبضے سے نکال لیا تھا۔ اور عیسائیوں کی سزا دہی کی کوششوں میں مصروف تھا۔ وفات چھ مہینے کی برائے نام حکومت کے بعد بادشاہ فائز عبیدی نے ۵۵۵ھ میں وفات پائی۔ وزیر السلطنت صالح بن زریک نے خدام کو حکم دیا کہ وہ خاندان سلطنت کے لڑکوں کو پیش کریں۔ تاکہ ان میں سے کسی ایک کو تخت سلطنت کے لیے منتخب کیا جائے۔ چنانچہ ابو محمد عبداللہ بن یوسف بن حافظ عبیدی کو تخت سلطنت پر بٹھا کر اس کا لقب ’’عاضد لدین اللہ‘‘ تجویز کیا۔ عاضد اس وقت سن بلوغ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ عاضد کو تخت سلطنت پر بٹھا کر وزیر السلطنت صالح نے اپنی بیٹی کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا۔ عاضد بن یوسف عبیدی عاضد چونکہ صالح کے ہاتھ میں تھا۔ عاضد برائے نام بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ حقیقتاً