تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
والی ریاست بنا دیا۔ آخر ۳۱۵ھ میں یہ ریاست معدوم ہو کر تمام علاقہ مقبوضات سلطانی میں شامل ہوا۔ ادھر سلطان عبدالرحمن ثالث اپنے آبائی ملک کو باغیوں کے قبضے سے واپس لینے میں کامیاب ہوا ادھر شمال اور جنوب دونوں جانب اس کے لیے قدرتی طور پر بہتری کے سامان پیدا ہوئے۔ عبدالرحمن ثالث کو شمال کی جانب عیسائیوں کے حملے کا اندشیہ تھا۔ کیونکہ وہ بحر روم سے بحر ظلمات تک جزیرہ نما کے تمام شمالی حصے پر قابض و متصرف تھے۔ اور اب بجائے عباسیوں کے عبیدیین کی طرف سے ان کی ہمت افزائی ہو رہی تھی۔ ان کے دلوں پر مسلمانوں کی وہ ہیبت اب طاری نہ رہی تھی جو طارق و موسیٰ کی آمد کے وقت طاری ہوئی تھی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اب پہلے کی طرح بہادر و باہمت نہ رہے تھے۔ اور عیسائیوں نے بہت کچھ بہادری و جفاکشی میں ترقی کرلی تھی۔ لہٰذا شمالی خطرہ کم نہ تھا۔ جنوب کی جانب عبیدیین کی طاقت بہت زبردست ہو گئی تھی۔ اور وہ برا عظم افریقہ کے تمام شمالی حصے پر مستولی ہو کر مراکش کی حکومت ادریسیہ کا نام و نشان گم کرنے اور اندلس کی فتح کا عزم رکھتے تھے۔ سلطان عبدالرحمن ثالث کو بیک وقت دونوں جانب سے اطمینان حاصل ہو گیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ۔ الفانسوسوم کی سلطنت کی تقسیم الفانسوسوم بادشاہ ایسٹریاس نے اپنی سلطنت کو اپنی اولاد میں اس طرح تقسیم کیا تھا۔ کہ لیون کا علاقہ غرسیہ کو دیا۔ جلیقیہ کی حکومت اردونی کے حصے میں آئی۔ اور اویڈو کا علاقہ فرویلہ کو ملا۔ غرسیہ کی شادی شاہ نوار کی بیٹی سے ہوئی تھی اس لیے ریاست نوار کو لیون کی ریاست سے خصوصی تعلق تھا۔ چنانچہ لیون اور نوار کی ریاستوں نے مل کر کئی مرتبہ مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ تین سال حکومت کرنے کے بعد غرسیہ ۳۱۶ھ میں فوت ہوا۔ اس کے بعد شانجہ کو ریاست لیون کا فرماں روا ہوا۔ مگر اردونی حاکم جلیقیہ نے اپنے بھتیجے شانجہ کو بے دخل کر کے خود ریاست لیون کو بھی اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ ادھر بادشاہ نوار کا انتقال ہوا تو شانجہ بھاگ کر اپنے ننھیال میں چلا گیا۔ وہاں اس کی نانی طوطہ نامی حکمران نوار تھی۔ ادھر قسطلہ کی ریاست نے بادشاہ جلیقیہ و لیون کی فرماں برداری سے آزاد خود مختار ہونے کی کوشش شروع کی اور فروی نند حاکم قسطلہ اپنی خود مختاری کی تدابیر میں مصروف ہوا۔ غرض ان عیسائی فرماں روائوں کے اندر کچھ ایسے خرخشے اور اندرونی جھگڑے پیدا ہوئے کہ وہ کئی سال تک اسلامی علاقے کی طرف متوجہ نہیں ہو سکے۔ سلطان عبدالرحمن ثالث نے عیسائیوں کے ان خانگی نزاعات کی خبریں سن کر عقلمندی اور ہوشیاری کی راہ سے اس طرف مطلق کوئی فوج نہیں بھیجی اور موقعہ دیا کہ وہ آپس ہی میں لڑ بھڑ کر اپنے معاملات کو طے کریں۔ اگر ان ایام میں سلطان عبدالرحمن شمال کی جانب فوج کشی کرتا تو یقیناً عیسائیوں کے اندر فوراً اتفاق و اتحاد ہو جاتا۔ اور ان کی آپس کی لڑائیاں یک لخت بند ہو جاتیں۔ مراکش پر قبضہ اسی فرصت میں جنوب کی جانب سے یہ خوشخبری پہنچی کہ عبیدیین جو مراکش کے خاندان ادریسیہ کو مٹا کر تمام ملک مراکش پر قابض و متصرف ہونا چاہتے ہیں ان کے مقابلے سے تنگ آ کر ابراہیم بن محمد ادریسی بجائے اس کے کہ عبیدیین کی فرماں برداری و اطاعت قبول کرے۔ سلطان عبدالرحمن ثالث کی اطاعت اختیار کرنا چاہتا ہے۔ اب تک دربار قرطبہ اور حکومت مراکش کے تعلقات دوستانہ و ہمسرانہ تھے۔ سلطان