تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تنہائی بنیں۔ اس کے بعد تہ خانہ کا منہ نہایت مضبوطی کے ساتھ بند کر دیا گیا۔ ایک لاش کے ساتھ اس طرح چند بیگناہ زندہ لڑکیوں کا بند کرنا ایک ایسی و حشیانہ رسم ہے۔ جس کے تصور سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ ہلاکو خان کے زمانے میں ہندوستان کے اندر سلطان غیاث الدین بلبن کی حکومت تھی۔ ہلاکو خان ہمیشہ سلطان بلبن کے حالات معلوم کرتا رہتا تھا۔ مگر اس کو کبھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ ہندوستان پر حملہ کرے۔ بعض مغل سردار ہندوستان پر حملہ آور ہوئے۔ مگر ہندوستان کے غلام بادشاہوں کا یہ کارنامہ نہایت عظیم الشان ہے۔ کہ انھوں نے ہر مرتبہ مغلوں کو شکست دے کر بھگا دیا۔ اور بعد میں یہاں تک بھی نوبت پہنچی کہ مغل دارالسلطنت تک پہنچ گئے۔ مگر ہندوستان میں ان کے قدم ہرگز نہ جم سکے۔ یہ وہ زمانہ تھا۔ کہ تمام عالم اسلام میں بدامنی اور پریشانی پھیلی ہوئی تھی۔ مغلوں کے خروج اور تاخت تاراج کے زمانے میں صرف ہندوستان ہی ایک ملک تھا۔ جہاں ایک زبردست اسلامی سلطنت قائم تھی۔ اور جو مغلوں کی دست برد سے قریباً محفوظ و مامون رہا۔ ہلاکو خان کے وزیر اور مصاحبوں میں خواجہ نصیر الدین طوسی بہت مشہور شخص ہے نصیر الدین طوسی علم ہئیت کا زبردست عالم تھا۔ اسمٰعیلیوں‘ باطنیوں کا تربیت کردہ تھا۔ اس کی ایک مشہور کتاب اخلاق ناصری ہے۔ جو اس نے ناصر الدین بادشاہ الموت کے نام پر معنون کی تھی۔ محیطی بھی اس کی تصنیف ہے جو علم ہئیت کی مشہور کتاب ہے۔ اباقا خان جب ہلاکو خان مراغہ میں فوت ہوا۔ تو امیروں نے ایک عظیم الشان مجلس منعقد کر کے ہلاکو خان کے بیٹے اباقا خان کو تخت سلطنت کے لئے منتخب کیا۔ اباقا خان نے تخت پر بیٹھنے سے انکار کیا اور کہا کہ قویلا خان جو مغلوں کا بادشاہ ہے جب تک اجازت نہ دے‘ میں کیسے تخت نشین ہو سکتا ہوں۔ مگر سرداروں نے اس کے اس عذر کو قبول نہیں کیا۔ اور اصرار سے اس کو تخت سلطنت پر بٹھایا۔ اباقا خان ۲ رمضان ۶۶۳ھ کو تخت نیشن ہوا۔ اس نے تخت نشین ہو کر فوج اور امیروں کو انعامات دئیے اپنے بھائی بشموت نامی کو شیروان کی حکومت عطا کی۔ دوسرے بھائی تیشین نامی کو ماژندران و خراسان کا حاکم مقرر کیا۔ توبان بہادر ابن سونجاق کو روم کا حاکم نامزد کیا۔ توران ابن ایلکان جلائردرلکین کو بھی روم ہی کی طرف کا ملک عطا ہوا۔ ارغون آقا کو وزیر مال اور خواجہ شمس الدین جوینی کو وزیر اعظم بنایا۔ اور اپنے بیٹے ارغون خان کی اتالیقی مہرتاق نویاں برلاس کو سپرد کی۔ اباقا خان نے تخت نشین ہونے کے بعد برکہ خان سے لڑائیوں کا سلسلہ جاری کیا۔ آخر انہی لڑائیوں کے درمیان برکہ خان نے وفات پائی اور اباقا خان کے ملک پر ہر طرف سے سرداروں اور رشتہ داروں نے دندان آزتیز کئے۔ براق چغتائی نے ملک خراسان پر قبضہ کرنا چاہا۔ لڑائیاں ہوئیں۔ آخر اباقا خان نے فتح پائی رفتہ رفتہ اس کا اقتدار قائم ہو گیا۔ مگر مصری فوج کے مقابلہ پر جب بھی ملک شام میں فوج بھیجی۔ مغلوں کی فوج نے ہمیشہ شکست کھائی۔ عجیب اتفاق ہے کہ مصر اور ہندوستان دونوں ملک اپنی آب و ہوا اور باشندوں کے اعتبار سے بہادری میں کوئی بڑا مرتبہ نہ رکھتے تھے۔ اور دونوں ملکوں میں غلاموں کی حکومت تھی۔ لیکن مغلوں نے جنگ جو ملکوں اور جنگ جو قوموں کے مقابلے میں تو فتوحات حاصل کیں۔ مگر مصر و ہندوستان میں ان کو ہمیشہ رذیل ہو کر شکست ہی کھانی پڑی۔