تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کر سرحد کی طرف عیسائیوں کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا۔ قرطبہ میں قریشیوں اور امویوں کو یہ دیکھ کر کہ حکومت و خلافت خاندان بنو امیہ سے نکل کر ایک اور خاندان میں جا رہی ہے۔ سخت ملال ہوا تھا۔ انہوں نے خاندان خلافت کی حمایت کے لیے لوگوں کو خفیہ طور پر آمادہ کرنا شروع کیا۔ اب جب کہ ناصر مع فوج شمالی سرحد پر گیا ہوا تھا۔ قرطبہ والوں نے قرطبہ کی موجودہ فوج کے ان افسروں کو جو ناصر کے ہمدرد ہوا خواہ تھے قتل کر کے خلیفہ ہشام ثانی کو معزول کر دیا اور اس کی جگہ خلیفہ عبدالرحمن ثالث کے پرپوتے محمد بن ہشام بن عبدالجبار بن خلیفہ عبدالرحمن ثالث کو تخت نشین کر کے ’’مہدی باللہ‘‘ کا لقب دیا۔ ناصر عبدالرحمن نے اس طرح ہشام کے معزول اور مہدی کے تخت نشین ہونے کی خبر سن کر فوراً قرطبہ کی جانب کوچ کیا۔ جب قرطبہ کے قریب پہنچا تو اس کی فوج کے اکثر سردار اور بربری سپاہی خلیفہ مہدی کی خدمت میں چلے آئے۔ ناصر جب بہت ہی تھوڑے سے آدمیوں کے ساتھ حیران و پریشان رہ گیا تو اسی کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے ناصر کو قتل کر دیا۔ اور اس کا سر اتار کر قرطبہ میں خلیفہ مہدی کے پاس لے آیا۔ اس طرح حکومت بنی عامر کا خاتمہ ہوا۔ اور ساتھ ہی اندلس میں طائف الملوکی کا دور دورہ شروع ہوا۔ مہدی بن ہشام بن عبدالجبار ہشام نے لوگوں کی خواہش معلوم کر کے بلا توقف بذریعہ تحریر تخت خلافت سے دست برداری اختیار کی محمد بن ہشام المخاطب بہ مہدی نے اس کو قصر خلافت کے ایک حصے میں نظر بند کر دیا۔ اور اپنے ایک چچا زاد بھائی محمد بن مغیرہ کو حاجب السلطنت اور دوسرے چچا زاد بھائی امیہ بن الحاف کو کوتوال قرطبہ مقرر کیا۔ اس کے بعد منصور اعظم کے شہر و قصر زاہرہ کی طرف فوج بھیجی۔ وہاں کے رہنے والوں نے بلا مقابلہ دروازے کھول دئیے۔ خلیفہ مہدی کی فوج نے تمام قصر اور عمارات کو منہدم کر کے زمین کے برابر کر دیا۔ اور تمام مال و اسباب لوٹ کر زاہرہ کا نام نشان صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ یہ حادثہ ۳۹۹ھ یا ۴۰۰ھ میں وقوع پذیر ہوا اس کے بعد ناصر کے قتل اور خاندان ابن ابی عامر کی حکومت کے ختم ہونے کا واقعہ پیش آیا۔ اور چوتھی صدی ہجری کے خاتمہ پر اندلس کی حکومت اسلامیہ کی عظمت و شان ختم ہو کر طائف الملوکی کا دروازہ کھلا۔ فوجیوں کا اقتدار خلیفہ ہشام ثانی کو معزول اور خلیفہ مہدی کو تخت نشین کر کے اور سلطان ناصر کی مخالفت میں فوراً قریشیوں اور امویوں کے شریک حال بن جانے میں بربری افواج نے سب سے زیادہ حصہ لیا تھا۔ لہٰذا اب خلیفہ مہدی کی حکومت و خلافت میں بربریوں اور فوجی آدمیوں کا اقتدار حد سے زیادہ بڑھ گیا۔ اور خلافت کی باگ یک لخت فوجی لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی۔ ان لوگوں نے رعایا پر تشدد شروع کیا۔ رعایا نے تنگ آ کر خلیفہ مہدی سے شکایت کی۔ مہدی سے رعایا کی فریاد کو اس لیے نہ سنا کہ وہ بربریوں کو ناراض کرنا خلاف مصلحت سمجھتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل قرطبہ میں جو لوگ مہدی کے طرف دار اور اس کو تخت خلافت پر بٹھانے میں سر گرم رہے تھے سب ناراض ہو گئے اور اس تکلیف دہ حکومت سے آزاد ہونے کی تدبیریں سوچنے لگے۔ بربریوں کی زیادتیوں سے تنگ آ کر اہل شہر نے بربریوں کے چند شخصوں کو قتل کر دیا۔ خلیفہ مہدی نے ان قاتلوں