تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھی انہی حضرات کے فتووں کی بنا پر قتل ہو چکا ہے تو وہ اپنے قتل ہونے کو یقینی سمجھنے لگا اور قرطبہ تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ لوگوں سے آنکھ بچا کر بھاگ نکلا۔ سیدھا اپنے قلعہ میں پہنچ کر قلعہ بند ہو بیٹھا اور ارد گرد سے اپنے تمام آدمیوں کو جمع کر لیا۔ سلطان منذر کی وفات سلطان منذر پھر اس کی طرف لوٹا۔ اب کی مرتبہ بڑی سختی سے قلعہ کا محاصرہ شروع کیا۔ عمر بن حفصون نے بھی بڑی ہمت کے ساتھ مدافعت جاری رکھی۔ اس محاصرے نے طول کھینچا اور قلعہ ابھی فتح نہ ہو پایا تھا کہ سلطان منذر نے ۲۷۵ھ میں بحالت محاصرہ دو برس سے بھی کم حکومت کر کے قریباً ۴۶ سال کی عمر میں وفات پائی۔ سلطان منذر کے کوئی بیٹا نہ تھا۔ اس لیے امراء لشکر نے منذر کے بھائی عبداللہ کے ہاتھ پر قلعہ کی دیوار کے نیچے بیعت کی۔ عبداللہ نے عمر بن حفصون کے پاس پیغام بھیجا کہ مجھ کو تم سے کوئی مخالفت و پرخاش نہیں ہے۔ اب تم اپنے قلعہ میں اطمینان سے رہو ہم قرطبہ کو واپس جاتے ہیں۔ گویا سلطان عبداللہ نے اپنی تخت نشینی کے ساتھ ہی عمر بن حفصون کی ریاست و حکومت کو بھی باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا۔ عمر بن حفصون نے اس کو بہت غنیمت سمجھا اور سلطان عبداللہ اپنے بھائی منذر کے جنازے کو لے کر قرطبہ پہنچا۔ راستہ میں عرب سرداروں کی چہ میگوئیاں حد سے بڑھ گئیں اور سلطان عبداللہ کو متہم کرنے میں یہاں تک مبالغہ سے کام لیا گیا کہ قرطبہ تک پہنچتے پہنچتے تمام فوج ادھر ادھر منتشر ہو گئی اور سو آدمیوں سے بھی کم آدمی سلطان عبداللہ کے ساتھ سلطان منذر کا جنازہ لیے ہوئے قرطبہ میں داخل ہوئے۔ عبداللہ بن محمد کی پہلی کمزوری سلطان عبداللہ بن محمد نے تخت نشین ہوتے ہی یہ کمزوری دکھائی کہ عمر بن حفصون کی حکومت تسلیم کر کے محاصرہ اٹھا لیا۔ حالانکہ اس کے لیے قدرتی طور پر اپنے عنوان سلطنت کو شاندار بنانے کا موقعہ تھا کہ وہ قلعہ کو فتح کر کے واپس ہوتا اور عمر بن حفصون کو جو طول اور شدت محاصرہ سے تنگ آ چکا تھا گرفتار یا مقتول کر کے قرطبہ کی جانب لوٹتا۔ عبداللہ کے عہد میں سلطنت بنو امیہ کی حالت سلطان عبداللہ کی تخت نشینی کے وقت یعنی ۲۷۵ھ میں حکومت اندلس یعنی سلطنت بنو امیہ کی حالت اس قدر سقیم ہو چکی تھی کہ خزانہ تمام خالی ہو گیا تھا‘ آمدنی جو کسی زمانہ میں دس لاکھ دینار سالانہ پہنچ گئی تھی۔ اب ایک لاکھ دینار سالانہ تک پہنچ گئی تھی‘ عیسائی ریاستوں سے قطع نظر کی جائے تو دارالسلطنت قرطبہ کے دونوں پہلوئوں پر دو ایسے زبردست رقیب پیدا ہو چکے تھے جن کی طاقت سلطنت قرطبہ سے کم نہ تھی‘ ایک طرف ابن حفصون تھا اور دوسری طرف ابن مروان‘ ابن حفصون زیادہ عقلمند اور مدبر شخص تھا۔ اس کا طرز حکومت ایسا تھا کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے اور اس کے زیر حکومت رہنے کو پسند کرتے تھے۔ مگر چونکہ اس کے ارتداد کا اعلان ہو چکا تھا اس لیے بہت سے مسلمان اس کی مدد کو گناہ سمجھ کر بجائے اس کے سلطنت کے دوسرے رقیب ابن مروان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ابن حفصون باوجود اعلان ارتداد عیسائی ریاستوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ مگر ابن مروان باوجود مسلمان ہونے کے الفانسوسوم بادشاہ السیٹریاس اور دوسرے عیسائیوں کا ہم عہد اور رفیق تھا۔ نواح اشبیلیہ