تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شمالی عیسائی بادشاہوں سے مدد پہنچ سکتی تھی۔ عبیدیین قدرتی طور پر بنو امیہ کے دشمن تھے جس طرح کہ وہ بنو عباس کے بھی دشمن تھے۔ اور عیسائی اس لیے اس کو محبوب تھے کہ وہ مرتد ہو کر پھر عیسائی بن گیا تھا۔ دوسری طاقت ریاست اشبیلیہ کی تھی۔ جہاں عربوں کی حکومت تھی اور شان و شکوہ میں اشبیلیہ کا دربار قرطبہ کے دربار سے فائق نظر آتا تھا۔ عبدالرحمن نے سب سے پہلے اشبیلیہ کے دربار سے فرماں برداری و اطاعت کا اقرار لینا اور شرائط اطاعت کا ادا کرانا چاہا۔ اشبیلیہ کا حاکم ابراہیم بن حجاج فوت ہو کر اس کی جگہ حجاج بن مسلمہ تخت نشین ہو چکا تھا۔ اشبیلیہ کے بہت سے سرداروں نے سلطان عبدالرحمن ثالث کے ساتھ اظہار عقیدت کیا اور دربار اشبیلیہ نے بھی اس موقعہ پر خرخشہ پیدا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ پہلی مہم اشبیلیہ کی جانب سے جب سلطان عبدالرحمن ثالث کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ ادھر سے کوئی مخالفانہ فوجی کارر وائی نہیں ہو گی تو اس نے ایک فوج مرتب کر کے اپنے آزاد غلام بدر نامی کو دے کر عمر بن حفصون کی جانب روانہ کیا۔ یہ مہم سلطان عبدالرحمن ثالث نے اپنے جلوس کے پہلے ہی سال یعنی ۳۰۰ھ میں روانہ کی۔ بدر نے عمر بن حفصون کے قلعوں کو یکے بعد دیگرے فتح کرنا شروع کیا۔ عمر بن حفصون اپنا بہت سا میدانی علاقہ فتح کرا کر پہاڑی قلعوں میں جا چھپا‘ بدر اس طرف سے سالماً غانماً واپس آیا اور لوگ بخوشی آ آ کر سلطانی فوج میں داخل ہونے لگے۔ بغاوتوں کا استیصال ۳۰۱ھ میں سلطان عبدالرحمن ثالث نے ابن مسلمہ کی طرف سے ناشدنی حرکات دیکھ کر اور بعض امیر ان اشبیلیہ کی شکایات سن کر اشبیلیہ پر فوج کشی کی۔ ابن مسلمہ نے عمر بن حفصون سے مدد طلب کی۔ عمر بن حفصون نے اس موقعہ کو مناسب سمجھ کر ابن مسلمہ کی مدد اس طرح کی کہ جب سلطانی فوج اشبیلیہ کی طرف گئی تو ابن حفصون کی فوج پیچھے سے سلطانی فوج کی طرف بڑھی۔ سلطان عبدالرحمن ثالث نے عمر بن حفصون کی فوج کو بھی شکست دے کر بھگایا اور ابن مسلمہ کو بھی شکست فاش ہوئی۔ ابن مسلمہ گرفتار ہوا۔ اور سلطان نے اپنا ایک گورنر اشبیلیہ میں مقرر کر دیا۔ اس کام میں سلطان کو زیادہ دقت نہیں اٹھانی پڑی کیونکہ ابن مسلمہ کے رشتہ دار اور اراکین دربار اشبیلیہ خود اس بات کے خواہاں تھے کہ اشبیلیہ سلطان عبدالرحمن ثالث کے حدود سلطنت میں براہ راست شامل ہو جائے۔ دربار اشبیلیہ کے مشہور سرداروں میں ایک شخص اسحاق بن محمد تھا جو اشبیلیہ کے فتح ہونے کے بعد قرطبہ میں چلا آیا اس کو سلطان عبدالرحمن ثالث نے جو ہر قابل پاکر اپنا وزیر بنایا۔ جب وہ فوت ہوا تو اس کے بیٹے احمد بن اسحٰق کو وزارت کا عہدہ عطا کیا۔ اس طرح جب سلطنت کے وقار و عظمت میں ترقی ہو گئی تو سلطان عبدالرحمن ثالث نے فوجیں آراستہ کر کے عمر بن حفصون کے استیصال کو ضروری سمجھا اور ۳۰۴ھ میں اس طرف فوج کشی کی عمر بن حفصون نے اس موقعہ پر عبیدیین کی سلطنت سے امداد طلب کی‘ وہاں سے جو جہاز آئے ان کو سلطان عبدالرحمن نے اپنے جہازوں کے ذریعے ابن حفصون تک نہ پہنچنے دیا اور سمندر ہی میں سب کو گرفتار کر لیا۔ ابن حفصون پر مایوسی چھا گئی۔ اور وہ جب پہاڑوں میں محصور ہو کر سخت مجبور ہو گیا تو اس نے یحییٰ بن اسحٰق کے ذریعہ اپنی درخواست سلطان کی خدمت میں پہنچوائی اور آئندہ مطیع و