تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نقصان کسی مسلمان کو کبھی نہیں پہنچ سکتا‘ حقیقت بھی یہ تھی کہ پلیو کو پہاڑ سے نیچے اترنے اور میدانی علاقہ میں نکلنے کی کبھی جرأت بھی نہیں ہوئی اور نہ ایسی جرأت عیسائیوں کو مسلمانوں کے مقابلے میں ہو سکتی تھی‘ مگر ان پادریوں نے جو اپنے مذہبی تبرکات لے لے کر پلیو کے پاس پہنچ گئے تھے‘ پلیو کو ایک مذہبی سردار اور عیسوی تبرکات کا محافظ قرار دیا‘ بارہ تیرہ سال تک وہ اسی چھوٹے سے پہاڑی علاقہ میں رہا‘ اور اطراف و جوانب کے عیسائیوں سے اس کو سامان رسد کی امداد پہنچتی رہی‘ جوں جوں زمانہ گذرتا گیا عیسائیوں میں پلیو کی عظمت و محبت و شہرت ترقی کرتی گئی اور بہت سے عیسائی تکالیف برداشت کرتے بھی پلیو کے پاس پہنچے اور تبرکات کی زیارت کرنے کو ضروری سمجھتے رہے مسلمان ہمیشہ یہ سمجھتے رہے کہ چند عیسائی وحشی پہاڑ کی کھو میں ہمارے خوف سے اپنی جان بچا کر چھپ گئے ہیں‘ ہماری صورت دیکھ کر فرار ہوتے اور خوف کے مارے ہمارے سایہ سے بھاگتے ہیں ان کو پڑا رہنے دو‘ اس بے پروائی اور کم التفاتی نے ان عیسائیوں میں بتدریج جرأت پیدا کر دی اور وہ اپنی چھوٹی سی پہاڑی جائے پناہ کو ایک سلطنت سمجھنے لگے‘ پلیو کو اپنا بادشاہ اور محافظ دین عیسوی قرار دیا۔ الفانسو پلیو کے انتقال پر اس کے بیٹے کو اپنا بادشاہ بنایا اور دو تین سال کے بعد وہ بھی فوت ہو گیا تو پلیو کے داماد الفانسو نامی کو عیسائیوں نے اپنا افسر اور بادشاہ قرار دیا‘ ادھر مسلمانوں کی خانہ جنگی اور آپس کے کشت و خون نے مسلمانوں کو شمالی صوبوں اور جبل البرتات کے متصلہ علاقوں کی طرف مطلق توجہ نہ کرنے دی‘ اس فرصت میں الفانسو نے جلیقیہ‘ اراگون‘ اربونیہ کے علاقوں سے عیسائیوں کو اس پہاڑی علاقہ میں آنے اور آباد ہونے کی دعوت دی‘ جب عیسائیوں نے اپنے سر سبز کھیتوں اور میدانی علاقوں کو چھوڑنا اور زاہدانہ زندگی بسر کرنا پسند نہ کیا تو الفانسو نے ارد گرد کے علاقوں پر چھاپے مارنے شروع کئے‘ ان ڈاکہ زنیوں میں وہ صرف لوٹ مار ہی پر اکتفا نہ کرتا تھا بلکہ عیسائی آبادیوں پر چھاپہ مار کر عیسائیوں کو پکڑ پکڑ کر لے جاتا اور اپنے پہاڑی علاقہ میں سکونت پذیر کرتا تھا‘ ان عیسائیوں کی نظر بندوں کی طرح نگرانی بھی ہوتی تھی اور وہ کسی طرح اس پہاڑ سے نکل کر بھاگ نہیں سکتے تھے۔ عیسائی خود مختار ریاست کا دارالحکومت اس طرح جبریہ طور پر ایک آبادی پہاڑ کے اندر قائم کی گئی‘ جو ایسٹریاس کے نام سے موسوم ہوئی اور یہی الفانسو کا دارالحکومت بنا‘ یہاں پادریوں کے رات دن کے وعظ و تقریر نے ان گرفتار شدہ عیسائیوں کو بتدریج اس پہاڑی زندگی پر رضا مند کر دیا اور رفتہ رفتہ اس قدر آدمی جمع ہو گئے کہ وہ تنگ دامن ان کے لیے کافی نہ رہا‘ اب الفانسو نے جبل البرتات کے شمالی دامن کی طرف اس علاقے میں لوٹ مار مچائی جو مسلمانوں کے قبضے میں تھا‘ مگر وہ میدان میں جم کر مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا‘ تاہم اس نے بتدریج جبل البرتات کے جنوبی دامن سے شمالی دامن تک کا پہاڑی علاقہ سب اپنے قبضے میں کر لیا اور ایک چھوٹی ریاست قائم کر کے عیسائیوں کی امید گاہ بن گیا‘ مسلمان اگرچہ آپس میں چھری کٹاری ہو رہے تھے لیکن ان کا کوئی ایک سردار اگر چاہتا تو جبل البرتات کے پہاڑی سلسلہ میں سے اس کانٹے کو بڑی آسانی سے نکال کر پھینک سکتا تھا‘ مگر وہ اس حالت میں بھی اگر عزم و ارادہ کرتے تو صوبہ اربونیہ سے آگے