تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
دشمنوں کے سینوں کو چھیدتے۔ زمین میں گاڑا اور تلواروں کو دشمنوں کی طرف پھینک دیا۔ بعض نے عجیب و غریب تمسخر انگیز حرکات کا اظہار کیا اور معرکہ جنگ شروع ہونے کے بعد امیر ناصر کے احکام کی تعمیل ترک کر دی۔ زبردست اور باقاعدہ مسلح فوج کی یہ نامعقول و ناستودہ حرکات دیکھ کر مجاہدین کے بھی حوصلے پست ہو گئے۔ امیر ناصر کے بخل کا یہ خطرناک نتیجہ اور مراکشی و بربری لشکر کی یہ رذیلا نہ غداری اسلام اور مسلمانوں کے لیے بے حد مضر ثابت ہوئی۔ اندلس کے کسی میدان میں آج تک اتنی بڑی فوجیں نبرد آزما نہ ہوئی تھیں عین معرکہ جنگ میں اسلامی لشکر کا ایک بڑا حصہ یہ غداری نہ دکھاتا تو یورپ کی اس عظیم الشان اور متفقہ فوج کو یقیناً مسلمانوں کے ہاتھ سے ہزیمت اٹھانی پڑتی اور آئندہ کبھی عیسائیوں کو مسلمانوں کے مقابلے کی ہمت نہ ہوتی۔ کیونکہ جو انجام وہ شام و فلسطین میں دیکھ کر آئے تھے۔ اس سے بدتر انجام ان کا اندلس میں ہوتا مگر حسرت و افسوس کے ساتھ بیان کرنا پڑتا ہے کہ اس چھ لاکھ کے اسلامی لشکر کا انجام یہ ہوا کہ اپنے امیر کی نافرمانی کر کے سب کا سب عیسائیوں کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ امیر ناصر نے شمشیر زنی میں مطلق کوتاہی نہیں کی۔ اور اکثر مجاہدین نے اپنے امیر کا ساتھ دیا۔ صرف ایک ہزار آدمی اس چھ لاکھ کے لشکر میں سے زندہ بچے۔ اور وہ بہ مشکل امیر ناصر کو میدان جنگ سے واپس لانے میں کامیاب ہوئے۔ باقی یا تو میدان جنگ میں لڑ کر شہید ہوئے یا عیسائیوں کے ہاتھ میں قید و گرفتار ہو گئے۔ گرفتار ہونے والوں کو توقع تھی کہ ہم کو آزاد کرا لیا جائے گا۔ مگر عیسائیوں نے اسی میدان العقاب میں سب کو ذبح کر ڈالا۔ امیر ناصر اشبیلیہ میں شکست خوردہ واپس آیا۔ اور عیسائیوں نے اندلس کے شہروں کو لوٹنا اور مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ شہر جیان کی تمام مسلم آبادی کو گرفتار کر کے مردوں‘ بچوں اور بوڑھوں عورتوں کو قتل کر ڈالا۔ الفانسو نے جب دیکھا کہ عیسائی مجاہدین تمام ملک کو تہ تیغ کرنے اور اموال و اسباب کے لوٹنے میں مطلق العنان ہیں تو اس نے ان کو روکنا اور اپنے زیر اقتدار رکھنا چاہا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس سے ناراض ہو ہو کر دوسرے ممالک کے عیسائی اپنے اپنے ملکوں کو واپس ہونے لگے۔ جس کو الفانسو نے بہت ہی غنیمت سمجھا۔ جنگ العقاب نے اندلس میں اسلامی سلطنت کی جڑوں کو ہلا دیا۔ اس کے بعد سلطنت موحدین اور مغرب میں مسلمانوں کی حکومت جلد جلد زوال پذیر ہونے لگی۔ ساقش میں بہت سے قصبے اور گائوں اس لڑائی کے بعد ویران ہو گئے کیونکہ ان کے باشندے اس لڑائی میں کام آ گئے تھے۔ امیر ناصر چند روز اشبیلیہ میں مقیم رہ کر مراکش میں آیا۔ اور ۱۰ شعبان ۶۱۰ھ بروز چہار شنبہ فوت ہو کر اگلے روز بروز پنشنبہ مدفون ہوا۔ یوسف مستنصر امیر ناصر کی وفات کے بعد ۱۱ شعبان ۶۱۰ھ کو اس کا بیٹا یوسف تخت نشین ہوا اور اپنا لقب مستنصر رکھا۔ تخت نشینی کے وقت اس کی عمر سولہ سال کی تھی۔ وہ یکم شوال ۵۹۴ھ کو پیدا ہوا تھا۔ دس سال تخت نشین رہ کر ۶۲۰ھ کے ماہ شوال میں لاولد فوت ہوا۔ یہ نہایت عیش پرست اور کم ہمت شخص تھا۔ عیسائیوں نے اندلس کے اکثر حصہ پر قبضہ کر لیا۔ بعض صوبوں کے والیوں نے اپنے صوبوں کو جواں مردی کے ساتھ عیسائیوں کی دست برد سے محفوظ رکھا۔ مگر مستنصر مرتے وقت تک مراکش سے باہر نہ نکلا اور بادشاہ ہو کر کبھی اندلس میں نہ آیا۔