تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
--- باب : ۱۲اندلس میں اسلامی حکومت کا خاتمہ! ۱۲ جمادی الآخر ۸۹۶ھ کو فرڈی نند شاہ قسطلہ مع ملکہ ازبیلا عظیم الشان قلعہ شکن توپ خانے اور بے شمار جرار لشکر لئے ہوئے غرناطہ کے متصل پہنچا۔ یہاں پہنچتے ہی اس نے سر سبز و شاداب باغوں‘ کھیتوں اور آباد بستیوں کو تاراج و خاک سیاہ بنانا اور مسلمان باشندوں کے خون کی ندیاں بہانا شروع کر دیا۔ غرناطہ کے سامنے پہنچ کر اس نے چھائونی ڈال دی اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔ اہل شہر نے محصور ہو کر اور اپنی زندگیوں سے مایوس ہو کر مدافعت میں پھر جان لڑانی شروع کر دی۔ شہر کا ایک حصہ چونکہ کوہ شلیر سے وابستہ تھا۔ لہٰذا عیسائی فوجیں شہر کا مکمل محاصرہ نہیں کر سکتی تھیں یہ محاصرہ قریباً آٹھ مہینے جاری رہا۔ جزیرہ نمائے اندلس میں اب سوائے اس محصور شہر کے اور کوئی اسلامی مقبوضہ باقی نہ تھا۔ جب موسم سرما شروع ہوا۔ اور پہاڑ پر برف کی وجہ سے راستے بند ہو گئے تو شہر والوں کو جو رسد کوہ شلیر کی طرف سے پہنچتی تھی موقوف ہوئی۔ لہٰذا ماہ صفر ۸۹۷ھ میں اہل شہر نے سلطان ابوعبداللہ سے درخواست کی کہ جب تک ہمارے جسم میں جان باقی ہے دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ اب بھوکے مرنے کے عوض ہم میدان جنگ میں تیر و تفنگ کھا کر جان دینا پسند کرتے ہیں۔ ہم کو امیر طارق ابن زیاد کا معرکہ یاد ہے کہ اس فاتح اول نے اپنی مٹھی بھر جمعیت سے ایک لاکھ عیسائی فوج کو شکست فاش دی تھی ہماری تعداد جو اس وقت محصور ہے بیس ہزار سے کچھ کم ہے۔ لیکن چونکہ ہم مسلمان ہیں۔ لہٰذا ہم کو عیسائیوں کی ایک لاکھ باسامان فوج سے ہراساں ہونے کی مطلق ضرورت نہیں۔ سلطان ابو عبداللہ نے دیکھا کہ اہل شہر کا اضطراب دن بدن بڑھتا ہے۔ اگر فوراً جنگ یا صلح کا فیصلہ نہ ہوا تو لوگ باغی ہو کر کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھیں جس سے نقصان عظیم پہنچے۔ اس نے وزراء و امراء کو طلب کر کے مجلس مشورہ قصر حمراء میں منعقد کی شہر کے علماء و شیوخ کو بھی اس مجلس میں شریک کیا گیا۔ ابو عبداللہ نے کہا کہ اب عیسائی لوگ جب تک شہر پر قبضہ نہ کر لیں گے محاصرہ سے باز نہ آئیں گے۔ ایسے نازک وقت میں کیا تدبیر کی جائے۔ سلطان ابو عبداللہ کا حوصلہ اس قدر پست ہو گیا تھا۔ کہ ان چند الفاظ کے سوائے اس کی زبان سے اور کوئی جملہ نہ نکل سکا۔ اس کے جواب میں تمام حاضرین نے کہا۔ مناسب یہی ہے کہ شاہ قسطلہ سے صلح کر لی جائے۔ مگر بہادر سپہ سالار موسیٰ بن ابیل غسانی جوش میں آ کر کھڑا ہو گیا اس نے کہا کہ ابھی تک کامیابی کی امید باقی ہے۔ ہم کو ہرگز ہمت نہ ہارنی چاہیئے۔ ہم کو آخر تک مقابلہ کرنا چاہیے۔ مجھ کو امید ہے کہ ہم عیسائیوں کو ضرور بھگا دیں گے اور ان کا محاصرہ اپنے شہر سے اٹھا دیں گے۔ عام باشندگان غرناطہ کی یہی رائے تھی جو موسیٰ نے ظاہر کی مگر اس مجلس میں جو لوگ شریک تھے ان میں سے کسی نے موسیٰ کی تائید نہ کی۔ یہی قرار پایا کہ اگر ہم جنگ میں