تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہونا ہے۔ جس کو ایران و خراسان کی حکومت حاصل تھی۔ اور جس کے ہاتھوں سے خلافت بغداد برباد ہوئی۔ ہلاکو خان جب قراقورم میں منکو خان تخت سلطنت پر بیٹھا تو اس کے پاس شکایت پہنچی کہ گروہ باطنیہ اسماعیلیہ کی سرارتیں حد سے متجاوز ہو چکی ہیں اور یہ لوگ بلا قید و مذہب و قوم ہر ایک اس شخص کے دشمن ہیں جو تخت و تاج کا مالک یا سرداری و سپہ سالاری کی عزت سے مفتخر ہو‘ امراء و سرداران لشکر کو ان فدائیوں یعنی باطنیوں کے خوف سے راحت کی نیند نہیں آ سکتی۔ ساتھ ہی یہ بھی اطلاعیں پہنچیں کہ خلیفہ بغداد اگرچہ بظاہر کمزور سمجھا جاتا ہے مگر اس کی عظمت و شوکت اس قسم کی ہے کہ اگر وہ مغلوں کے مقابلے پر مستعد ہو گیا تو مغلوں کو اس سے عہد برآ ہونا دشوار ہو گا۔ منکو قاآن نے اپنے بھائی ہلاکو خان کو ایک لاکھ بیس ہزار مغلوں کی جرار فوج کے ساتھ روانہ کیا اور حکم دیا کہ دریائے جیحون سے مصر تک کا ملک تمہاری حفاظت اور نگرانی میں دیا جاتا ہے۔ اگر خلیفہ بغداد صلح و آشتی پر قائم رہے تو تم کو اس سے لڑنا نہیں چاہیے۔ لیکن اگر خلیفہ کی نیت غیر ہو تو تمہارا فرض ہے کہ اس کے استیصال میں دریغ نہ کرو۔ ساتھ ہی الموت کے قلعہ میں اسمٰعیلیوں کا بادشاہ اقامت گزیں ہے اس کا نام و نشان مٹا دو۔ اور ان اسمٰعیلیوں کی اچھی طرح بیخ کنی کر دو۔ ہلاکو خان کے ہمراہ امیر ایچل ابن امیر قرا چار بطور سپہ سالار روانہ کیا گیا۔ ہلاکو خان ۶۵۱ھ میں وارد خراسان و ایران ہوا۔ آدز بائیجان و شروان و گرجستان وغیرہ کے سلاطین ہلاکو خان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اظہار عقیدت و نیاز مندی کے بعد مورد مراحم خسروانہ ہوئے۔ ارغون آقا اویرات خراسان سے منکو خان قاآن کی خدمت میں روانہ ہوا۔ ہلاکو خان نے خراسان پہنچ کر اور یہاں کے حالات سے واقف و آگاہ ہو کر اول ملاحدہ اسماعیلیہ کی طرف توجہ کی اور یکے بعد دیگرے ان کے قلعوں پر قبضہ کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ یکم ذیقعدہ ۶۵۴ھ بروز یکشنبہ قلعہ الموت فتح ہو گیا۔ اور اسمٰعیلیوں کا بادشاہ رکن الدین خورشاہ ہلاکو خان کے سامنے گرفتار ہو کر حاضر ہوا۔ ہلاکو خان نے خورشاہ کو منکو خان کی خدمت میں قراقورم کی طرف روانہ کیا۔ اور جن لوگوں کی حراست میں اس کو روانہ کیا تھا۔ ان کو حکم دیا۔ کہ راستے ہی میں اس کا کام تمام کر دینا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ رکن الدین خورشاہ کے اہل و عیال اور متعلقین سب قتل کیے گئے۔ مگر خواجہ نصیر الدین طوسی جو خورشاہ کی مصاحبت میں داخل تھا۔ اپنی زبان آوری اور ہوشیاری کے سبب ہلاکو خان کے مصاحبوں میں داخل ہو گیا۔ اسمٰعیلیوں کے تمام خزائن و دفائن مغلوں کے ہاتھ سے تاراج ہوئے اور ان کی سلطنت کا چراغ گل ہوا۔ اس کے بعد نصیر الدین طوسی نے ہلاکو خان کو بغداد پر فوج کشی کرنے کی ترغیب دی۔ اور خلیفہ بغداد کے وزیر علقمی نے نمک حرامی کی راہ سے نصیر الدین کے ذریعہ ہلاکو خان سے ساز باز کیا۔ اور بغداد کی تباہی عمل میں آئی۔ بغداد کی بربادی کا مفصل حال اوپر دوسری جلد میں چونکہ بیان ہو چکا ہے۔ اس لیے اس دل خراش داستان کو یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں‘ اموال‘ خزائن بے قیاس بغداد سے لے کر ہلاکو خان مراغہ کی طرف متوجہ ہوا۔ وہاں سے زر و جواہر کے انبار اور لونڈی غلام قطار در قطار منکو خان کی خدمت میں قراقورم کی طرف روانہ کئے۔ اتابک سعدبن ابوبکر حاکم فارس اور بدر