تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس کے بعد محمد بن عبدالرحمن بن عبداللہ مستکفی کے لقب سے تخت نشین ہوا‘ ۴۱۶ھ میں یحییٰ بن علی بن حمود جو اپنے چچا قاسم کو گرفتار کر چکا تھا اور سریش مالقہ‘ اور جزیرہ پر قابض و متصرف تھا‘ مع فوج قرطبہ کی جانب روانہ ہوا‘ مستکفی اس حملہ آوری کی خبر سن کر کچھ ایسا حواس باختہ ہوا کہ قرطبہ سے شمالی حدود کی جانب بھاگ گیا اور وہیں ۲۵ ربیع الاول ۴۱۶ھ کو فوت ہو گیا۔ یحییٰ نے قرطبہ میں داخل ہو کر اپنے ایک افسر ابن عطاف کو قرطبہ کی حکومت سپرد کی‘ اور خود مالقہ کی جانب چلا گیا اور وہاں جا کر ابو القاسم بن عباد حاکم اشبیلیہ کو زیر کرنے کے لیے فوجی تیاریوں میں مصروف ہوا‘ چند روز کے بعد اہل قرطبہ نے ابن عطاف کے خلاف علم مخالفت بلند کیا اور اس کو مع فوج قرطبہ سے نکال دیا۔ اہل قرطبہ میں ابو محمد جمہور بن محمد نامی ایک شخص سب سے زیادہ با رسوخ و با اثر تھا اس کے مشورہ سے اہل قرطبہ نے ہشام اموی کو جو لریدہ میں مقیم تھا اپنا خلیفہ تسلیم کیا‘ ہشام تین سال تک قرطبہ میں نہ آ سکا‘ ۴۲۰ھ میں وہ داخل قرطبہ ہوا اور معتمد باللہ کے لقب سے تخت نشین ہوا دو سال کے بعد ۴۲۲ھ میں فوج اور رعایائے قرطبہ نے اس کو معزول کر کے خارج کر دیا‘ اور وہ لریدہ میں واپس آ کر ۴۲۸ھ تک زندہ رہا‘ یحییٰ بن علی نے اشبیلیہ کا محاصرہ کیا تھا اور اہل قرطبہ کو دھمکیاں دیتا رہتا تھا‘ ہشام کے قرطبہ سے چلے جانے کے بعد اہل قرطبہ نے یحییٰ کی فرماں برداری اختیار کر لی‘ یحییٰ نے ۴۲۶ھ میں اشبیلیہ کو اپنا مطیع کیا‘ اس طرح یحییٰ بن علی کا رعب اس طائف الملوکی میں سب سے زیادہ قائم ہو گیا‘ اسی سال ابوقاسم بن عباد حاکم اشبیلہ کا انتقال ہو گیا تھا‘ اس کی جگہ اس کا بیٹا معتضد تخت نشین ہوا‘ اہل اشبیلیہ نے پھر علم آزادی بلند کیا اور یحییٰ بن علی نے اشبیلیہ پر حملہ کیا‘ اسی حملہ میں یحییٰ بن علی مقتول ہوا۔ یہ واقعہ ۴۲۸ھ میں وقوع پذیر ہوا‘ یحییٰ بن علی کے مقتول ہونے پر اس کے ہوا خواہ مالقہ میں چلے گئے‘ جو یحییٰ کا مستقر حکومت تھا وہاں انہوں نے یحییٰ کے بھائی ادریس بن علی کو سبطہ سے بلوا کر تخت نشین کیا اور سبطہ کی حکومت حسن بن یحییٰ کو ملی‘ ادریس بن علی نے مالقہ میں تخت نشین ہو کر اپنا لقب متاید باللہ رکھا‘ قرطبہ میں ابو محمد جمہور نے جمہوری حکومت قائم کی‘ ممبران کونسل نے ابو محمد جمہور کو اپنا صدر منتخب کیا‘ اس طرح شہر قرطبہ میں ہر قسم کا امن و امان رہا‘ ادریس بن علی نے والی قرمونہ اور والی المیریہ کو اپنا شریک بنا کر اشبیلیہ پر حملہ کیا‘ اور تین چار سال تک اشبیلیہ کی فوجوں سے لڑائی کا سلسلہ جاری رہا‘ ۴۳۱ھ میں ادریس بن علی فوت ہوا‘ بعض سرداروں نے اس کے بیٹے یحییٰ بن ادریس کو مالقہ کے تخت پر بٹھانا چاہا‘ بعض نے کہا کہ حسن بن یحییٰ حاکم سبطہ مستحق تخت نشینی ہے‘ بالآخر حسن بن یحییٰ سبطہ سے آ کر مالقہ کے تخت پر بیٹھا‘ اور اپنا لقب مستنصر رکھا‘ ۴۳۱ھ میں حسن کی چچا زاد بہن یعنی ادریس کی لڑکی نے اس کو زہر دے کر مار ڈالا‘ اس کے بعد تین چار سال تک اس خاندان کے غلاموں اور نوکروں نے مالقہ میں یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ ادریس بن یحییٰ حمودی آخر ۴۴۳ھ میں ادریس بن یحییٰ بن علی بن حمود مالقہ کے تخت پر قابض و متمکن ہوا‘ غرناطہ و قرمونہ کی ریاستوں نے اس کی اطاعت قبول کی‘ ادریس بن یحییٰ نے اپنا لقب ’’عالی‘‘ رکھا‘ اور سبطہ کی حکومت اپنے باپ کے غلاموں سکوت وزرق اللہ کو عطا کی‘ ۴۴۸ھ میں محمد بن علی بن حمود نے خروج کیا اور ادریس بن یحییٰ شکست کھا کر