تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی اور دمشق میں جلدازجلد داخل ہو کر اپنے آپ کو خلیفہ ولید بن عبدالملک کی خدمت میں پیش کیا‘ خلیفہ ولید نے حالت بیماری میں موسیٰ کے تحف و ہدایا اور مال غنیمت سے وہ مسرت حاصل نہ کی جس کی موسیٰ کو توقع تھی‘ موجودہ خلیفہ کی علالت کو خطرناک دیکھ کر امراء و وزراء ولی عہد خلافت کی نگاہ میں اپنے آپ کو محبوب بنانے کی عام طور پر کوشش کیا کرتے ہیں‘ لہٰذا موسیٰ بن نصیر کی اس حرکت کو موسیٰ کے مخالفوں یا حاسدوں نے اور بھی محل اعتراض بنایا ہو گا اور موسیٰ کی مخالفت میں لوگوں کی زبانیں ضرور تیز ہو گئی ہوں گی اور سلیمان بن عبدالملک کے روبرو موسیٰ بن نصیر کی ایک ایک غلطی بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی ہو گی اور اس کے طیش و غضب کو اور بھی زیادہ بھڑکا دیا ہوگا۔ سلیمان بن عبدالملک کی تخت نشینی اور موسیٰ بن نصیر پر عتاب آخر اسی ہفتہ ولید بن عبدالملک نے وفات پائی اور ۱۶ ماہ جمادی الثانی ۹۶ھ کو خلیفہ سلیمان بن عبدالملک تخت نشین ہوا‘ سلیمان بن عبدالملک نے تخت نشین ہو کر موسیٰ بن نصیر سے سختی کے ساتھ محاسبہ کیا اور جب ممالک مغربیہ کے خراج کی بقایا جو موسیٰ بن نصیر کے ذمہ واجب الادا تھی موسیٰ ادا نہ کر سکا تو خلیفہ نے اس کو معتوب بنا کر اس کا مال و اسباب ضبط کر لیا اور دو لاکھ اشرفیاں جو اس کے ذمہ باقی رہ گئی تھیں ان کے عوض موسیٰ کو قید کر دیا‘ طارق اور مغیث الرومی بھی موسیٰ بن نصیر کے مشہور سردار اور فتح اندلس میں سب سے زیادہ کارہائے نمایاں انجام دینے والے تھے‘ اندلس پر فوج کشی کا حکم دربار خلافت سے نہیں دیا گیا تھا‘ بلکہ موسیٰ کی درخواست فوج کشی کو دربار خلافت نے صرف منظور کیا تھا‘ لہٰذا فتح اندلس کا کارنامہ موسیٰ بن نصیر ہی سے زیادہ تعلق رکھتا تھا اور موسیٰ و طارق ہی کی شہرت کا باعث ہوا تھا۔ طارق کا انجام خلیفہ سلیمان نے جب موسیٰ سے ناراض ہو کر اس کو قید کر دیا تو طارق پر بھی جو موسیٰ کا آزاد کردہ غلام اور موسیٰ ہی کا تربیت کردہ تھا اس کا اثر پڑا اور کوئی غیر معمولی قدردانی طارق کی نہیں کی گئی‘ نہ اس کو اندلس یا مراکش کی حکومت پر واپس بھیجا گیا‘ کیونکہ تمام ممالک مغربیہ موسیٰ بن نصیر کے بیٹوں کے قبضے میں تھے‘ یعنی اندلس میں عبدالعزیز بن موسیٰ اور قیروان میں عبداللہ بن موسیٰ اور مراکش میں مروان بن موسیٰ حکمراں تھا‘ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے لئے ضروری تھا کہ وہ موسیٰ کے خاندان کی طرف سے غافل نہ ہو اور طارق کو جو موسیٰ ہی کے خاندان کا ایک شخص سمجھا جاتا تھا‘ کوئی ذمہ داری کا عہدہ نہ دے‘ چنانچہ طارق کو ایک معقول پنشن دے کر ملک شام کے کسی شہر میں قیام پذیر ہونے کی پروانگی عطا ہوئی اور موسیٰ کو قید کر دیا گیا‘ امیر ابن المہلب نے موسیٰ کی سفارش کی تو سلیمان بن عبدالملک نے موسیٰ کو قید سے آزاد کر دیا اور جس قدر روپیہ اس سے وصول ہو سکتا تھا وصول کر کے وادی القریٰ میں سکونت پذیر ہونے کا حکم دیا۔ موسیٰ بن نصیر کی وفات موسیٰ بن نصیر اس ناکامی و نامرادی کے عالم میں اگلے ہی سال یعنی ۹۷ھ میں اٹھہتر سال کی عمر پا کر فوت ہوا‘ موسیٰ بن نصیر ۷۹ھ میں افریقہ کا گورنر مقرر ہوا تھا۔ مورخین نے اس موقعہ پر موسیٰ و طارق کے اس مہجول انجام کو دیکھ کر خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کو نشانۂ اعتراض بنایا ہے کہ اس نے ان ملک گیر و فتح مند سپہ سالاروں