تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رومیوں نے چیرہ دست ہو کر قبضہ کر لیا تھا۔ اور وہ بتدریج اس سلجوقی سلطنت کے حدود کو محدود کرتے اور آگے بڑھتے آتے تھے۔ دوسری طرف و مشرقی علاقے مغلوں کی دست بردنے جدا کر لیے تھے اور وہ دم بدم آگے بڑھ رہے تھے۔ اس طرح سلطنت قونیہ دو پاٹوں کے درمیان پسی جا رہی تھی اور محدود ہوتے ہوتے ایک ریاست کی شکل میں تبدیل ہو گئی تھی۔ جس کے بہت جلد فنا ہونے کی توقع تھی۔ اس بہادر گروہ اور ان بہادر سرداروں کو دیکھ کر علائو الدین نے سلیمان کے بیٹے کو ایسے موقعہ پر جاگیردی جو رومی سلطنت کی سرحد پر واقع تھا۔ اور باپ کو فوج کا سپہ سالار بنا کر مشرق کی جانب مغلوں کی روک تھام پر مامور کیا۔ چند روز کے بعد ارطغرل نے رومیوں کی ایک فوج کو شکست فاش دے کر اپنی جاگیر کو رومی علاقہ کی طرف وسیع کیا اور اس حسن خدمت کے صلے میں علائو الدین سلجوقی نے بھی اپنی طرف سے اور علاقہ اسی نواح میں عطا فرما کر ارطغرل کی طاقت اور علاقے کو بڑھا دیا۔ اور ارطغرل کے اس طرح طاقتور ہونے سے رومی سرحد کا خطرہ بالکل جاتا رہا مگر چند روز کے بعد سلیمان خان جو دریائے فرات کے کنارے مع فوج سفر کر رہا تھا اور مغلوں کے خارج کرنے میں مصروف تھا۔ دریائے فرات کو عبور کرتے ہوئے دریا میں غرق ہو کر راہی ملک بقا ہوا۔ ارطغرل اپنے علاقے پر حکمران رہا۔ اور دم بہ دم اپنی طاقت کو ترقی دینے میں مصروف رہا چونکہ ارطغرل عیسائیوں کے ساتھ مسلسل مصروف جنگ اور عیسائیوں کے علاقے چھین چھین کر اپنے ملک وسیع کر رہا تھا لہٰذا اس کا اس نواح میں طاقت ور ہونا شاہ قونیہ کے لیے بہت کچھ باعث اطمینان تھا اور وہ ارطغرل کی بڑھتی ہوئی طاقت کو بہ نظر اطمینان معائنہ کرتا تھا۔ ۶۳۴ھ میں علائو الدین کیقباد کا انتقال ہوا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا غیاث الدین کیخسرو قونیہ میں تخت نشین ہوا۔ غیاث الدین کیخسرو کو مغلوں نے اپنی بار بار کی حملہ آوری سے بہت تنگ کیا اور ۶۴۱ھ میں غیاث الدین کیخسرو نے مغلوں کو خراج دینا منظور کر لیا۔ سلطنت قونیہ کے اس طرح باج گزار ہونے کا ارطغرل پر کوئی اثر نہ پڑا۔ کیونکہ وہ ایک ایسے صوبہ کا گورنر اور فرماں روا تھا جو بظاہر مغلوں کی دست برد سے محفوظ و مامون تھا۔ مغلوں کو اس کے بعد ایشیائے کوچک کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کی فرصت بھی نہ تھی۔ ۶۵۶ھ میں چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد کی خلافت عباسیہ کا چراغ گل کیا۔ ۶۵۷ھ میں ارطغرل جاگیردار انگورہ کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام عثمان خان رکھا گیا۔ یہی وہ عثمان خان ہے جس کے نام سے ترکوں کے بادشاہوں کو سلاطین عثمانیہ کہا گیا۔ ۶۸۷ھ میں جب کہ عثمان کی عمر تیس سال کی تھی۔ ارطغرل نے وفات پائی اور شاہ قونیہ نے ارطغرل کا تمام علاقہ عثمان کے نام مسلم رکھ کر سند حکومت بھیج دی عثمان خان کی قابلیتوں سے واقف ہو کر اسی سال غیاث الدین کیخسرو بادشاہ قونیہ نے عثمان خان کو اپنی فوج کا رئیس العسکر بنا کر اپنی بیٹی کی شادی عثمان خان سے کر دی اب عثمان خان شہر قونیہ میں رہنے لگا۔ اور بہت جلد وزیر اعظم اور مدار المہام سلطنت کے مرتبہ کو پہنچ گیا حتیٰ کہ جمعہ کے دن قونیہ کی جامع مسجد میں عثمان خان ہی بجائے غیاث الدین کیخسرو کے خطبہ بھی سنانے لگا۔ عثمان خان ۶۹۹ھ میں غیاث الدین کیخسرو مغلوں کے ایک ہنگامہ میں مقتول ہوا اس کے کوئی بیٹا