تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس سے بھی بہت بڑھ کر ہمت دکھا سکتا ہے۔ اس نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے اس کی بیوقوفی ثابت ہو سکے بلکہ اس کے ہر کام میں اس قدر دانائی اور دور اندیشی پائی گئی کہ اس سے بڑھ کر دانائی و دور اندیشی کی کسی سے توقع ہی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس کی تمام زندگی یعنی مدت حکمرانی ہم کو جنگ و پیکار کے ہنگاموں سے پر نظر آتی ہے اور کسی کا خیال بھی اس طرف نہیں جا سکتا کہ امیر عبدالرحمن نے اندلس میں کوئی ایسا کام بھی کیا ہو گا جس کی ایک پر امن و امان سلطنت کے سلطان سے توقع ہو سکتی ہے۔ مگر جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ امیر عبدالرحمن نے اندلس میں علوم و فنون کے رواج دینے کی کوشش میں کامیابی حاصل کی اور اس ملک کے اندر اپنے خاندان کی حکومت کو مستقل بنانے کے لیے علم کے رواج دینے اور تمام ملک میں مدارس قائم کرنے کو سب سے زیادہ ضروری چیز سمجھا تو انسان حیران رہ جاتا ہے اور اس مدبر و مآل اندیش شخص کی فہم و فراست پر عش عش کرنے لگتا ہے۔ امیر عبدالرحمن نے شہر قرطبہ اور اکثر شہروں کی شہر پناہیں تعمیر کرائیں‘ اندلس کے بہت سے شہروں اور قصبوں میں جہاں ضرورتیں تھیں مسجدیں بنوائیں اور شہر قرطبہ میں ایک ایسی مسجد بنوائی‘ جس کا جواب روئے زمین پر نہیں ہو سکتا تھا اس مسجد کی تعمیر اگرچہ امیر عبدالرحمن اپنی زندگی میں پوری نہیں کر سکا اور ناتمام ہی چھوڑ کر فوت ہوا‘ مگر اس کی بنیاد جس وسیع پیمانے اور خوب صورت طریقے پر اس نے رکھوائی تھی‘ ختم ہونے کے بعد اس کے بانی ہی کی علوہمتی اور بلند نظری پر دلیل ہوئی‘ مسجد قرطبہ کی خوبصورتی اور حسن تدبیر نے بہت سے ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کی نگاہ میں اس مسجد کو خانہ کعبہ کی طرح باعظمت و مقدس بنا دیا تھا‘ حالاں کہ تمام مسجدیں ایک ہی مرتبہ رکھتی ہیں۔۱؎ شوق عمارات میں امیر عبدالرحمن کا مرتبہ ہندوستان کے شاہ جہاں سے بڑھ کر ہے تو رائے تدبیر میں وہ ارسطو کا ہمسر نظر آتا ہے‘ ملک اندلس میں اپنی سلطنت کا قائم کر لینا تیمور و نپولین کی فتوحات سے بہت بڑھ چڑھ کر مرتبہ رکھتا ہے‘ علوم و فنون کی سر پرستی میں وہ ہارون الرشید و مامون ۱؎ ویسے تو تمام مساجد اللہ کا گھر ہیں اور اس اعتبار سے ان کی حیثیت اور مقام یکساں ہے‘ لیکن فضیلت کے اعتبار سے تین مساجد خصوصی مقام رکھتی ہیں‘ یعنی مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام (بیت اللہ شریف)‘ مدینہ طیبہ کی مسجد نبویe اور بیت المقدس (فلسطین)۔ نبی کریمe نے ان تین مساجد کے علاوہ دیگر مساجد کے لیے سفر کرنا منع فرمایا ہے۔ (صحیح بخاری‘ کتاب التہجد‘ حدیث ۱۱۸۹) مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنا دوسری مساجد کی نسبت ایک لاکھ نماز سے افضل ہے۔ (صحیح الجامع الصغیر ۲:۷۱۴) مسجد نبویe میں ایک نماز کی ادائیگی سوائے مسجد حرام کے‘ باقی تمام مساجد میں نماز سے ایک ہزار درجہ زیادہ افضل ہے (صحیح بخاری‘ کتاب التہجد‘ حدیث ۱۱۹۰) الرشید سے کم نہ تھا بلکہ ہارون و مامون کے بعد خاندان عباسیہ میں علوم و فنون کے ایسے قدر دان پیدا نہ ہو سکے‘ لیکن عبدالرحمن کی اولاد میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے‘ جو ہارون و مامون سے بہت بڑھ کر علوم و فنون کے خادم ہوئے اور اسی لیے قرطبہ نے بغداد سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ ابن حیان لکھتا ہے کہ عبدالرحمن بڑا رحم دل اور شائستہ مزاج شخص تھا اس کی تقریر نہایت فصیح و بلیغ‘ اس کی قوت مدر کہ نہایت تیز اور نکتہ رس تھی‘ معاملات میں اپنی رائے جلدی قائم نہ کرتا تھا مگر قائم کر لینے کے بعد پورے استقلال اور مضبوطی کے