تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابن عبدالواحد امیر عبدالرحمن کی آمد کا حال سن کر اپنی جماعت کے ساتھ پہاڑوں میں جا چھپا اور مقابلہ نہیں کیا‘ امیر عبدالرحمن قرطبہ کی جانب واپس لوٹ آیا‘ طیطلہ کی حکومت پر حبیب بن عبدالملک کو مامور کر کے ابن عبدالواحد کی سر کوبی کی ہدایت کی‘ حبیب بن عبدالملک نے اپنی طرف سے سلیمان بن عثمان بن مروان بن عثمان بن ابان بن عثمان{ بن عفان کو ابن عبدالواحد کی گرفتاری و سزا دہی پر مامور کیا‘ سلیمان فوج لے کر ابن عبدالواحد کے تعاقب میں روانہ ہوا ابن عبدالواحد نے مقابلہ کیا اور سلیمان کو گرفتار کر کے قتل کر ڈالا۔ اور اطراف قوریہ پر قابض و متصرف ہو گیا۔ یہ حالت سن کر ۱۵۲ھ میں امیر عبدالرحمن نے قرطبہ سے پھر کوچ کیا‘ ابن عبدالواحد امیر کی خبر سن کر فوراً پہاڑوں میں بھاگ گیا اور امیر عبدالرحمن پریشان ہو کر پھر واپس چلا آیا۔ ۱۵۳ھ میں امیر عبدالرحمن نے اپنے خادم بدر کو ایک فوج دے کر روانہ کیا‘ بدر جب قلعہ شیطران کے قریب پہنچا تو ابن عبدالواحد شیطران کو خالی چھوڑ کر پہاڑوں میں چلا گیا ۱۵۴ھ میں پھر امیر عبدالرحمن خود گیا مگر حسب سابق شقنہ بن عبدالواحد ہاتھ نہ آیا۔ ۱۵۵ھ میں امیر عبدالرحمن نے ابوعثمان عبیداللہ بن عثمان کو ایک زبردست فوج دے کر روانہ کیا‘ لیکن اس مرتبہ بھی کوئی نتیجہ حسب مراد پیدا نہ ہوا بلکہ ابن عبدالواحد نے ابوعثمان کی فوج کے ایک بڑے حصے کو دھوکہ دے کر قتل کر ڈالا‘ اور کئی شہروں کو لوٹ لیا‘ مجبور ہو کر امیر عبدالرحمن ۱۵۶ھ میں پھر قرطبہ سے خود ہی فوج لے کر روانہ ہوا اور قرطبہ میں اپنے بیٹے سلیمان کو بجائے اپنے حاکم بنا گیا‘ جب قلعہ شیطران کے قریب پہنچا تو خبر پہنچی کہ یمنی قبائل اور اہل اشبیلیہ نے علم بغاوت بلند کر دیا‘ مجبوراً امیر عبدالرحمن شیطران اور ابن عبدالواحد کو ان کے حال پر چھوڑ کر اشبیلیہ کی طرف متوجہ ہوا اور عبدالملک بن عمرو کو حکم دیا کہ وہ آگے بڑھ کر اشبیلیہ پر حملہ کرے۔ عبدالملک نے اشبیلیہ کے قریب پہنچ کر اپنے بیٹے امیہ بن عبدالملک کو اہل اشبیلیہ پر شب خون مارنے کے لیے بطور ہر اول آگے روانہ کیا‘ امیہ نے اہل اشبیلیہ کو ہوشیار پا کر حملہ نہ کیا‘ اور باپ کے پاس واپس لوٹ آیا‘ عبدالملک نے واپسی کی وجہ پوچھی تو امیہ نے کہا کہ اہل اشبیلیہ ہوشیار تھے اور حملہ کرنے کا موقعہ نہ تھا‘ عبدالملک نے کہا تونے موت سے ڈر کر حملہ نہیں کیا تو بڑا بزدل ہے میں بزدل کو محبوب نہیں رکھتا اور یہ کہہ کر اس نے اسی وقت اپنے بیٹے امیہ کی گردن اڑا دی‘ اور اپنے ہمراہیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ تم جانتے ہو کہ ہم لوگ کس طرح قتل کیے گئے اور اپنے وطن سے بے وطن ہوئے‘ اتفاق سے اس قدر دور دراز فاصلہ پر زمین کا یہ ٹکڑا یعنی ملک اندلس ہمارے ہاتھ آ گیا ہے جو بمشکل ہماری گذر ان کے لیے کافی ہے۔ بزدلی کے ساتھ اس کو بھی ہاتھ سے دینا اور ضائع کرنا کسی طرح شایاں نہیں ہے۔ مناسب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو موت پر ترجیح نہ دیں اور بہادری کے ساتھ لڑ کر مارے جائیں۔ سب نے اس کی تائید کی اور مارنے مرنے کی قسمیں کھائیں۔ اشبیلیہ میں یمنی قبائل کی نہایت زبردست جمعیت اور پوری طاقت فراہم تھی اور یہ ان کی طاقت و قوت کی آخری نمائش تھی‘ لہٰذا اشبیلیہ کو فتح کرنا کوئی آسان کام نہ تھا عبدالملک بن عمر نے حملہ کیا اور اس کی فوج نے اس حملہ میں متفقہ طور پر اس کا ساتھ دیا‘ بڑی خوں ریز جنگ ہوئی‘ آخر اہل اشبیلیہ کو ہزیمت ہوئی‘ عبدالملک کے جسم پر کئی زخم