تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کر دینے کی حکمت عملی کچھ ہمارے موجودہ زمانے کے عیسائیوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اس حکمت عملی پر قیصر قسطنطنیہ نے بارہا عمل کیا ہے اور وہ ہر زمانے میں نہایت چوکس اور مستعد نظر آیا ہے۔۱؎ مگر مسلمان اگر آپس کی خانہ جنگی کو چھوڑ دیں اور متفق و متحد ہو کر دشمانان اسلام کے مقابلے پر مستعد ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کے مقابلے پر قائم نہیں رہ سکتی اور اس کو لازماً مغلوب و محکوم ہی ہونا پڑے گا عثمان خان اور اس کی اولاد نے اس حقیقت کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ اسی لئے انھوں نے خانہ جنگی اور اپنے مسلمان رقیبوں کے مقابلے سے اپنا پہلو ہمیشہ بچایا اور اپنے آپ کو حتی المقدور عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے مستعد رکھا۔ چنانچہ وہ اس عظیم الشان کام کو انجام دے سکے جو ان کے متقدمین سے انجام پذیر نہ ہو سکا۔ اب ہم کو عثمان خان کے بیٹے ارخان کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ ارخان عثمان خان کا بڑا بیٹا علائو الدین تھا اور چھوٹا ارخان تھا۔ علائو الدین اگرچہ علم و فضل عقل و بصیرت اور ہمت و استقلال میں بے نظیر تھا۔ مگر ارخان کے فوجی اور جنگی کارنامے سب سے بڑی سفارش اس امر کی ہوئے کہ عثمان خان نے ارخان کو اپنا جانشین تجویز کیا۔ عثمان خان کی وفات کے بعد قوی احتمال ہو سکتا تھا۔ کہ دونوں بھائی تخت و تاج کے لئے آپس میں لڑیں گے۔ مگر بڑے بھائی علائو الدین نے جو ہر طرح سلطنت کی قابلیت رکھتا تھا اپنے بڑے ہونے کے حق فائق کو باپ کی وصیت کے مقابلے میں بالکل ہیچ سمجھا اور نہایت خوشی کے ساتھ بھائی کو تاج و تخت کی مبارک باد دے کر اس کے ہاتھ پر اطاعت کی بیعت کی اور اپنے لئے صرف اسی قدر کافی سمجھا کہ بروصہ کے متصل اس کو صرف ایک گائوں گزارہ کے لئے بطور جاگیر دے دیا جائے۔ ارخان بھی اپنے بھائی کی قابلیت اور پاک باطنی سے واقف تھا۔ اس نے بہ منت عرض کیا اور اراکین سلطنت کو سفارشی بنایا کہ وزارت قبول فرما لیجئے۔ علائو الدین کے لئے اپنے چھوٹے بھائی کا وزیر بننا موجب عزت نہ تھا۔ لیکن اس نے بھائی کے اصرار پر اس عہدے کو قبول کر لیا اور اس خوبی اور نیک نیتی کے ساتھ مہمات سلطنت کو انجام دیا کہ دنیا کے پاک باطن اور عالی دماغ وزیروں کی فہرست میں اس کا نام اگر سب سے پہلے لکھا جائے تو کچھ بے جا نہیں ہے۔ سلطان ارخان نے تخت نشین ہوتے ہی ایک سال کے اندر تمام ایشیائے کوچک فتح کر کے درہ دانیال کے ساحل تک اپنی سلطنت کو وسیع کر لیا اور ایشیائے کوچک کو بتمامہ عیسائی حکومت سے پاک کر ۱؎ عیسائیوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو زیر کرنے اور انہیں اپنی طرف مائل کرنے کے لیے ہمیشہ سازشوں اور دھوکہ دہی سے کام لیا ہے۔ یہ باطل کی پہچان ہے کہ وہ دھوکہ و فریب اور سازشوں سے کام لے کر لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ حق اور طاقتور دلائل اپنا آپ منواتے ہیں اور یہ چیزیں عیسائیوں کے پاس موجود نہیں۔ کے اپنے بھائی علائو الدین کے مشورے سے اپنی مملکت میں ایسے آئین و قوانین جاری کئے جس سے سلطنت کو استحکام حاصل ہوا۔ اس وقت تک یہ دستور تھا کہ بہادر و جنگ جو سرداروں کو ملک کے چھوٹے چھوٹے قطعات بطور جاگیر دے دئیے جاتے تھے۔ ان جاگیروں کا سرکاری محصول یا لگان یہی تھا کہ ضرورت کے وقت بادشاہ کے طلب کرنے پر مقررہ تعداد کی فوج لے کر بادشاہ کے ساتھ میدان جنگ میں داد شجاعت دیں اور