تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وہ بہ مشکل اپنی جان بچا کر اور ساحل سمندر پر پہنچ کر بذریعہ جہاز اپنے خسر خان کریمیا کے پاس چلا گیا۔ اور وہاں تاتاریوں اور ترکوں کی فوجیں فراہم کرنی شروع کیں۔ ادھر ایشیائے کوچک میں احمد نے فوجیں فراہم کر کے قسطنطنیہ پر قبضہ کرنے اور سلطان بایزید ثانی کو تخت سلطنت سے اتار دینے کی تیاری کر لی تھی‘ سلطان بایزید اپنے چھوٹے بیٹے سلیم کو ایڈریا نوپل سے بھگا کر قسطنطنیہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ احمد حملہ آور ہونے والا ہے یہ حالت دیکھ کر سلطان بایزید ثانی بہت گھبرایا اور اراکین سلطنت میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ سلطان بایزید ثانی واقعی اس قابل نہیں رہا کہ تخت حکومت پر قائم رہے۔ اراکین سلطنت کے مشورے سے یا خود سلطان بایزید ثانی نے سلیم کے پاس پیغام بھیجا کہ تم اپنی فوج لے کر قسطنطنیہ چلے آئو اور احمد کے حملے کو روکنے میں سلطانی فوج کے شریک ہو جائو‘ سلیم اس حکم کے پہنچنے سے بہت خوش ہوا اور تین چار ہزار آدمی ہمراہ لے کر نہایت سخت مقامات اوردروں کو طے کرتا ہوا بحیرہ اسود کے کنارے کنارے چل کر ایڈریا نوپل اور وہاں سے قسطنطنیہ کی جانب روانہ ہوا۔ سلیم کے اس طرح پہنچنے کی خبر سن کر سلطان بایزید ثانی نے اس کے پاس حکم بھیجا کہ اب تمھاری ضرورت نہیں ہے تم کو چاہیئے کہ جہاں تک پہنچ چکے ہو وہیں سے واپس ہو کر صوبہ سمندرا کی طرف چلے جائو۔ جس پر تم نامزد کئے گئے ہو۔ ادہر سے اراکین سلطنت اور فوجی افسروں کے پیغام پہنچے کہ اب آپ ہرگز واپس نہ ہوں۔ بلکہ سیدھے قسطنطنیہ چلے آئیں اس سے بہتر موقعہ پھر کبھی آپ کے ہاتھ نہ آئے گا۔ چنانچہ سلیم قسطنطنیہ پہنچ گیا۔ سلیم کے قسطنطنیہ پہنچتے ہی تمام رعایا و اراکین سلطنت اور سپہ سالار ان افواج نے اس کا استقبال کیا اور قصر سلطانی کے دروازے پر پہنچ کر سب نے سلطان بایزید ثانی کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ دربار عام میں ہماری درخواست سن لیں۔ چنانچہ سلطان بایزید ثانی نے تخت پر بیٹھ کر دربار عام منعقد کیا‘ اراکین سلطنت‘ علماء و فقہاء‘ رعایا کے وکلاء فوج کے سردار سب نے مل کر عرض کیا کہ ہمارا سلطان اب بوڑھا ضعیف اور ناتوان ہو گیا ہے۔ ہم سب کی خواہش یہ ہے کہ سلطان اپنے بیٹے سلیم کے حق میں تخت سلطنت کو چھوڑ دے سلطان بایزید ثانی نے اس درخواست کو سنتے ہی بلاتامل فرمایا کہ میں نے تم سب کی خواہش کو منظور کر لیا اور میں سلیم کے حق میں تخت سے دست بردار ہوتا ہوں‘ یہ کہہ کر تخت سے اتر آیا‘ سلیم نے فوراً آگے بڑھ کر باپ کے شانے کو بوسہ دیا‘ سلطان بایزید ثانی نے اس کو مناسب نصیحتیں کیں اور پالکی میں سوار ہو کر چلا۔ سلیم پالکی کا پایہ پکڑے ہوئے ساتھ ساتھ چلا سلطان بایزید ثانی اپنی خواہش کے موافق شہر ڈیموٹیکا میں رہنے اور قیام کرنے کے ارادے سے قسطنطنیہ کو چھوڑ کر روانہ ہوا‘ کہ بقیہ ایام زندگی اسی شہر میں عبادت و خاموشی کی حالت میں گذار دے‘ سلیم شہر کے دروازے تک بطریق مشایعت پیدل آیا اور باپ سے رخصت ہو کر واپس ہوا اور تخت سلطنت پر جلوس کیا سلطان بایزید ثانی ابھی ڈیموٹیکا تک نہ پہنچا تھا کہ راستے ہی میں فوت ہو گیا‘ سلطان بایزید ثانی نے اپنی وفات کے وقت تین بیٹے اور نو پوتے چھوڑے‘ ان پوتوں میں سلیم کا اکلوتا بیٹا سلیمان بھی شامل تھا سلطان بایزید ثانی نے ۲۵ اپریل ۱۵۱۲ء مطابق ۹۱۰ھ میں تخت سلطنت کو چھوڑا اور ۲۹ اپریل ۱۵۱۲ء کو فوت ہوا سلطان سلیم ابن بایزید ثانی نے قسطنطنیہ میں تخت سلطنت پر جلوس کیا۔ سلطان سلیم عثمانی سلطان سلیم جب قسطنطنیہ میں فوج اور رعایا کی خوشی اور رضامندی سے تخت نشین