تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قرطبہ کا عزم کیا‘ تاکہ قرطبہ میں بیٹھ کر سلیمان کی نقل و حرکت کی نگرانی اور اس کا بندوبست بآسانی کیا جا سکے۔ بھائیوں کی معافی عبداللہ جب طول محاصرہ سے تنگ آ گیا تو اس نے بلا شرط اور بلا جان کی امان طلب کئے ہوئے اپنے آپ کو سلطان ہشام کے قبضے میں دے دینا گوارا کر لیا‘ چنانچہ وہ محاصرین کی ایک معتمد کی نگرانی میں قرطبہ آ کر دربار سلطانی میں حاضر ہوا‘ سلطان ہشام نے خطا معاف کر دی اور بڑی عزت و محبت کا برتائو کیا اور اس بات کے ثابت کرنے کے لیے کہ عبداللہ کی طرف سے سلطان کا دل صاف ہے اس کو طیطلہ ہی میں جاگیر دے کر رخصت کر دیا۔ سلیمان نے مرسیہ میں بہت سے آدمیوں کو جمع کر لیا‘ سلطان نے اپنے نو عمر بیٹے کو فوج کا سردار بنا کر مقابلہ پر بھیجا‘ دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا تو سلیمان حکم سے شکست کھا کر بھاگا‘ اس کی تمام جمعیت مقتول و منتشر ہو گئی آخر مجبور ہو کر دو برس تک آوارہ و سرگرداں رہنے کے بعد ۱۷۴ھ میں سلیمان نے سلطان ہشام سے معافی کی درخواست کی‘ سلطان ہشام نے فوراً اس کی درخواست منظور کی اور اپنے بھائی کو دربار میں نہایت عزت و تکریم کے مقام پر جگہ دی‘ سلیمان نے کہا کہ میں ملک اندلس میں اب رہنا پسند نہیں کرتا‘ مجھ کو افریقہ جانے کی اجازت دے دی جائے‘ ہشام نے بہ خوشی اس کو اجازت دے دی اور اس کی جاگیر جو اندلس میں تھی‘ ستر ہزار مثقال سونے کے عوض خرید لی‘ سلیمان افریقہ میں پہنچ کر مقیم ہوا‘ اور وہاں عباسیوں کا ایجنٹ بن کر مسلمانان اندلس کو ہمیشہ خط و کتابت کے ذریعہ بغاوت پر آمادہ کرتا رہا۔ فرانس پر حملہ بھائیوں کے فتنے سے فراغت پا کر سلطان ہشام نے چالیس ہزار فوج مرتب کر کے ملک فرانس پر حملہ کیا اور تمام جنوبی فرانس اور شہر ناربون کو جو عرصہ تک صوبہ اربونیہ کے مسلمان گورنر کا دارالحکومت رہ چکا تھا اور مسلمانوں کی خانہ جنگی کی وجہ سے امیر عبدالرحمن کے زمانہ میں فرانسیسیوں کے قبضے میں تھا پھر فتح کر لیا‘ یہاں سے بے قیاس مال و دولت ہاتھ آئی‘ واپسی میں جبل البرتات کے عیسائیوں سے گستاخانہ حرکات معائنہ ہوئیں یہ عیسائی ریاست مسلمانوں کی کم التفاتی اور عیسائیوں کی چالاکی کے سبب پہاڑ کے گوشہ میں قائم ہو گئی تھی‘ آج تک اس عیسائی ریاست نے کبھی اسلامی لشکر کا مقابلہ نہیں کیا تھا‘ اسی لیے مسلمانوں نے بھی اس کے وجود کو اپنے لیے مضر نہ سمجھ کر اس کو باقی رکھا تھا اب جب کہ اسلامی لشکر ملک فرانس کو فتح کر کے اور شارلیمین کو مقابلہ سے بھگا کر مع مال غنیمت واپس ہو رہا تھا‘ تو ایسٹریاس کے عیسائیوں نے مسلمانوں کی فوج کے عقبی حصہ کو اسی طرح چھیڑنا اور لوٹنا چاہا‘ جس طرح انہوں نے شارلیمین کی فوج کو جبل البرتات میں لوٹ کر اس کے ایک بڑے حصے کو برباد کر دیا تھا مگر شارلیمین اور ہشام کی فوجوں میں بہت فرق تھا۔ پہاڑی عیسائیوں کی سرکوبی سلطان ہشام نے قرطبہ پہنچ کر ۱۷۵ء میں اپنے وزیر یوسف بن بخت کو ان پہاڑی عیسائیوں کی سرکوبی پر مامور کیا یوسف بن بخت نے ریاست ایسٹریاس پر حملہ کر کے تمام ریاست کو تہ و بالا کر ڈالا‘ یہ پہلا موقعہ تھا‘ کہ ایسٹریاس کے عیسائیوں کو مسلمانوں کے مقابل ہونا پڑا مگر وہ بہت بری طرح ہلاک و برباد کئے گئے اور ان کا حاکم برمیوڈر