تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فساد فرو ہوئی مگر جب شاہی فوج واپس ہوئی تو یہ قبائل پھر آپس میں لڑنے لگے۔ پھر شاہی فوج گئی۔ غرض کہ قبائل کی اس خوں ریزی کا سلسلہ قریباً سات سال تک جاری رہا اور ملک اندلس کے اندر قبائل عرب نے عرب جاہلیت کی سیرت خوں خواری کی خوب نمائش کی۔ ۲۰۸ھ میں عیسائی ریاست الیسٹریاس یا ریاست جلیقیہ نے باج و خراج کی ادائیگی سے انکار کر کے علم بغاوت بلند کیا اور سلطنت اسلامیہ کی حدود میں داخل ہو کر شہروں کو لوٹا۔ اس خبر کو سن کو سلطان عبدالرحمن ثانی نے اپنے مشہور سپہ سالار عبدالکریم بن عبدالواحد بن مغیث کو مع فوج اس طرف روانہ کیا۔ اس بہادر سپہ سالار نے وہاں پہنچ کر ماہ جمادی الآخر ۲۰۸ھ میں عیسائیوں کو شکست پر شکست دے کر بھگایا اور ان کی فوجیں بھاگ کر پہاڑوں میں جا چھپیں عبدالکریم نے عیسائیوں کے سرحدی قلعوں کو مسمار کر کے عیسائی فرماں روا کو مجبور کیا کہ وہ خراج ادا کرے اور آئندہ فرماں بردار رہنے کا اقرار کر کے معافی چاہے۔ اس کامیابی کے بعد عبدالکریم واپس آیا۔ اور فوراً یہ فوج اسی سپہ سالار کی سرکردگی میں برشلونہ کی طرف روانہ کی گئی جہاں سے بغاوت اور جنگی تیاریوں کی خبر پہنچی تھی۔ شاہی فوج نے جاتے ہی برشلونہ کا تمام علاقہ فتح کر کے عیسائیوں کو بھگا کر پہاڑوں کے اندر چھپنے پر مجبور کر دیا اور جلیقیہ والوں کی طرح ان سے بھی اقرار اطاعت لے کر تمام ملک مفتوحہ کو پھر ان ہی کے قبضہ میں چھوڑ دیا گیا۔ قیصر قسطنطنیہ کی سفارت ۲۰۹ھ میں قیصر قسطنطنیہ کی طرف سے عبدالرحمن ثانی کی خدمت میں ایک سفارت حاضر ہوئی۔ اس سفارت کے ذریعہ قیصر نے سلطان اندلس سے محبت و دوستی کے تعلقات پیدا کرنے چاہے۔ دربار بغداد نے فرانس کے بادشاہ سے تعلقات محبت قائم کر لیے تھے۔ قیمتی تحف و ہدایا فرانسیسیوں کے لیے پہنچتے رہتے تھے اور دربار بغداد سے ہمیشہ اس بات کی کوشش ہوتی رہتی تھی کہ فرانسیسی ملک اندلس پر حملہ آور ہوں۔ ان باتوں سے دربار قرطبہ واقف تھا۔ ادھر سلاطین اندلس عباسی‘ قیصر قسطنطنیہ پر ہمیشہ حملہ آور ہوتے رہتے تھے اور دربار قسطنطنیہ اپنے آپ کو معرض خطر میں پاتا تھا۔ اب قیصر قسطنطنیہ نے سلطان اندلس کی بہادری اور مسلمانان اندلس کی شہرت سن کر دربار قرطبہ کو اپنا ہمدرد بنانا چاہا سلطان اندلس کو قدرتی طور پر قیصر قسطنطنیہ سے ہمدردی ہونی چاہیئے تھی کیونکہ وہ دربار بغداد کا دشمن تھا۔ قیصر قسطنطنیہ کے اس سفیر کی عبدالرحمن نے بڑی آئو بھگت کی۔ سفیر نے بڑے بڑے قیمتی تحفے پیش کیے اور قیصر قسطنطنیہ کی عظیم الشان طاقت اور زبردست افواج کے حالات مبالغہ کے ساتھ سنا کر اس بات کا یقین دلایا کہ اگر آپ قیصر قسطنطنیہ کے ساتھ دوستی کے تعلقات پیدا کر لیں گے تو بڑی آسانی سے آپ اپنی آبائی خلافت اور شام و عراق و عرب وغیرہ کی حکومت عباسیوں سے واپس لے سکیں گے۔ عبدالرحمن نے اس موقعہ پر بڑی دانائی اور مآل اندیشی سے کام لے کر صرف اس قدر وعدہ کیا کہ اگر مجھ کو اپنے ملک کی طرف سے اطمینان حاصل ہوا تو قیصر کی امداد کر سکتا ہوں لیکن فی الحال مجھ کو اپنے ہی ملک میں بہت سے ضروری اور اہم کام درپیش ہیں۔ پھر جواباً بہت سے قیمتی تحفے اس سفیر کے ہمراہ اپنے ایلچی یحییٰ غزال کے ہاتھ قیصر کے لیے روانہ کیے۔