تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عیسائی افواج کی گھٹائیں کچھ تو خاک و خون میں لتھڑی ہوئی لاشوں کی شکل میں تبدیل ہو گئیں اور اکثر لکہ ہائے ابر کی طرح پاش پاش ہو کر متحرک و مفرور نظر آنے لگیں‘ تکبیر کے پر ہیبت نعرے دم بہ دم میدان کے شور و غل پر غالب ہوتے جاتے تھے کہ شمشیر زنوں کی تیز دستی اور نیزہ بازوں کی چستی نے اس معرکہ کی عظمت کو مورخین عالم کے لئے ایسے بلند مقام پر پہنچا دیا کہ ربع مسکون کے ہر حصے اور دنیا کی ہر ایک قوم نے حیرت کی نگاہوں سے اسلامی جوش کے اس نظارے کو دیکھا۔ میدان جنگ سے لرزیق کی فراری بادشاہ لرزیق یعنی عیسائی افواج کا سپہ سالار اعظم اپنی تمام تجربہ کاری‘ بہادری اور شہرت کو عیسائی مقتولوں کے ساتھ خاک و خون میں ملا کر اور اپنی جان کو عزت سے زیادہ قیمتی سمجھ کر طارق کے مقابلے پر اپنے دیو ہیکل سبزی گھوڑے کو قائم نہ رکھ سکا بلکہ پیٹھ پھیر کر سراسیمگی کے عالم میں بھاگا‘ چند ساعت پیشتر جو شخص جزیرہ نما ہسپانیہ کا بادشاہ‘ ایک لاکھ جرار فوج کا سپہ سالار اور تمام پادریوں کا محبوب تھا‘ وہ سراسیمگی کی حالت میں اس طرح بھاگتا ہوا نظر آیا کہ دوسرے فراریوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کرتا تھا‘ اور اس آپ دھاپ میں کسی کو اتنا ہوش نہ تھا کہ اپنے بادشاہ کے لئے راہ فرار میں سہولت پیدا کر دے۔ عیسائی فوج کے شکست کے اسباب خلاصۂ کلام یہ کہ عیسائی لشکر کو شکست اور قلیل التعداد مسلمانوں کو فتح مبین حاصل ہوئی عیسائیوں کی اس شکست فاش کا سبب عیسائی لشکر کی بزدلی نہیں سمجھنا چاہیئے‘ بلکہ مسلمانوں کی غیر معمولی اور حیرت انگیز بہادری و جفاکشی اصل سبب تھا‘ اگر عیسائی لشکر کی بزدلی اس شکست کا سبب ہوتا تو بڑے بڑے سردار‘ شہزادے اور پادری‘ کثیر التعداد مقتولوں کی لاشوں میں شامل نظر نہ آتے‘ ہنگامۂ جنگ کی زد و خورد کے فرو ہونے کے بعد تمام میدان جنگ لاشوں سے پٹا پڑا تھا‘ عیسائی مقتولوں کی صحیح تعداد تو نہیں بتائی جا سکتی‘ لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس لڑائی کے ختم ہوتے ہی تمام اسلامی لشکر جس کے پاس کوئی گھوڑا نہ تھا‘ سواروں کے رسالوں کی شکل میں تبدیل ہو گیا تھا‘ یہ گھوڑے جو تمام مسلمانوں کے لئے کافی ہوئے انہی عیسائی سواروں کے تھے جو میدان جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ سے مقتول ہوئے اگر یہ سوار چاہتے تو مقتول ہونے سے پیشتر فرار ہو سکتے تھے ایک ہفتہ تک میدان جنگ میں مسلمانوں کی قلت تعداد عیسائی لشکر سے پوشیدہ نہ تھی‘ اس عرصہ میں عیسائیوں کو ہر قسم کا سامان بھی پہنچ رہا تھا ان کی تعداد بھی ترقی کر رہی تھی‘ لیکن مسلمانوں کی حالت اس اجنبی ملک میں اس کے بالکل خلاف تھی‘ عیسائیوں کی ہمتوں اور حوصلوں میں یقینا مسلمانوں کی قلت تعداد نے اضافہ کیا ہو گا‘ یہ لڑائی صبح سے شام تک جاری رہی تھی اس عرصہ میں طرفین کو اپنے حوصلے پورے کرنے اور پورا پورا زور صرف کر دینے کا بخوبی موقعہ ملا تھا‘ مگر نتیجہ نے بتا دیا کہ جس طرح مسلمانوں نے آٹھ گنی تعداد کے دشمنوں کو نیچا دکھایا‘ اسی طرح وہ دس گناہ تعداد کو بھی شکست فاش دے سکتے ہیں۔ {اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ } (الانفال : ۸/۶۵) ہسپانیہ کی گاتھ سلطنت ایک طرف فرانس اور دوسری طرف اٹلی کی رومی سلطنت کو جنگ آزمائی میں نیچا دکھاتی رہتی تھی‘ براعظم یورپ پر اس کا رعب طاری تھا‘ ہسپانیہ