تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
انگیز بہادریاں دکھائیں اور اپنے آپ کو ایسا قابل جرنیل ثابت کیا کہ خود ترکوں کی بہادر قوم نے اس کی بہادری و قابلیت جنگی کا اعتراف کیا۔ سلطان مراد خان کے عہد حکومت میں وہ مغلوب و اسیر نہ ہو سکا اور البانیہ کے پہاڑوں نے اس کی خوب امداد و اعانت کی لیکن جب ۸۷۲ھ میں وہ وینس کے علاقے میں جا کر مر گیا تو ترکی سپاہیوں نے اس کی قبر کھود کر اس کی ہڈیوں کے ٹکڑوں کو محض اس لیے تلاش کیا کہ ان کو بطور تعویز گلے میں ڈالا جائے تاکہ ویسی ہی بہادری اور جنگی قابلیت اس کی ہڈیوں کے اثر سے ہم میں پیدا ہو سکے سلطان مراد نے چونکہ اس کو بیٹوں کی طرح پرورش کیا تھا اس لیے وہ سکندر بیگ کا قتل یا بربادی نہیں چاہتا تھا اور سلطان کو توقع تھی کہ وہ کسی وقت راہ راست پر آ کر اطاعت و فرماں برداری کو اختیار کر لے گا۔ سلطان کی وفات کے بعد جب سلطان محمد خان ثانی تخت نشین ہوا چونکہ وہ بھی سکندر بیگ کو بھائیوں کی طرح عزیز رکھتا تھا اس لیے اس نے سکندر بیگ سے صلح کر کے اس کو البانیہ کا حاکم تسلیم کر لیا تھا۔ لیکن سکندر بیگ نے جب پھر بھی بغاوت اختیار کی تو سلطان محمد خان ثانی نے حملہ آور ہو کر البانیہ کو فتح کر لیا اور سکندر ریاست وینس کے علاقے میں چلا گیا جہاں اس کا ۸۷۲ھ میں انتقال ہوا۔ اس کے بعد البانیہ سلطنت عثمانیہ کا صوبہ تھا۔ سکندر بیگ کا چونکہ ذکر آ گیا تھا اس لیے اس کو یہیں ختم کر دیا گیا۔ سلطان مراد خان ثانی نے ۸۵۵ھ میں وفات پائی اور لاش بروصہ میں لے جا کر دفن کی گئی۔ اس سلطان نے تیس سال حکومت کی۔ اس سلطان کے عہد حکومت میں بھی بڑے بڑے عظیم الشان واقعات رونما ہوئے اور بحیثیت مجموعی سلطنت عثمانیہ کی بنیادیں پہلے سے زیادہ استوار ہو گئیں۔ یہ سلطان بہت نیک دل۔ خدا پرست اور رحم دل تھا۔ سلطان محمد خاں ثانی‘ فاتح قسطنطنیہ سلطان مراد خان کی وفات کے وقت اس کا بیٹا محمد خان ایشیائے کوچک میں تھا جس کی عمر اس وقت اکیس سال چند ماہ کی تھی۔ اس سے پیشتر محمد خان ثانی دو مرتبہ جب کہ اس کی عمر صرف پندرہ سولہ سال کی تھی۔ باپ کی زندگی میں تخت نشین ہو چکا تھا جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ مراد خان ثانی کی وفات کے بعد اراکین سلطنت نے ایشیائے کوچک میں محمد خان ثانی کے پاس خبر بھیجی اور وہ بلا توقف وہاں سے روانہ ہو کر درہ دانیال کو عبور کر کے ایڈریا نوپل پہنچا اور وہاں مراسم تخت نشینی ادا کیے گئے۔ شاہ سرویا کی بیٹی سے مراد ثانی کا ایک اور بیٹا تھا جو ابھی صرف آٹھ مہینے کا بچہ تھا۔ جب محمد خان ثانی کی تخت نشینی کے مراسم ادا ہو رہے تھے اور اراکین سلطنت اطاعت و فرماں برداری کی بیعت کر رہے تھے تو ینگ چری فوج کے سردار نے یہ حرکت کی کہ سلطان محمد خان ثانی کی اطاع کے بغیر اس بچے کو حمام میں لے جا کر قتل کر دیا غالباً یہ کام اس نو مسلم سردار نے محمد خان ثانی کی حمایت میں کیا اور اپنے نزدیک اچھی خدمت بجا لایا کیونکہ یہ لڑکا جوان ہو کر اپنی ماں یعنی سروین شہزادی کے سبب سرویا والوں اور دوسرے عیسائیوں سے مدد پا کر سلطان محمد ثانی کے لیے باعث تکلیف ہو سکتا تھا۔ لیکن سلطان محمد خان ثانی نے ینگ چری سردار کے اس ظالمانہ و سفاکانہ فعل کو سخت ناپسند کیا اور اپنے اس سوتیلے بھائی کے قصاص میں اس کو قتل کیا چونکہ چھ سال پہلے محمد خان ثانی اپنے باپ کے زمانے میں دو مرتبہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے لیے تخت نشین ہو کر کسی اولوالعزمی اور بلند ہمتی کا اظہار نہ کر سکا تھا اس لیے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ کمزور اور سست رائے سلطان ثابت ہو گا۔ حالانکہ یہ قیاس کرنا