تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تھا اور اپنے آپ کو چارلس مارٹل کے مقابلے میں طاقتور بنانے کے لیے اس بات کا خواہش مند ہوا کہ اپنے ہمسایہ مسلمان عامل کو اپنا ہمدرد بنا کر اپنے رقیب مارٹل کو نیچا دکھائے‘ چنانچہ ڈیوک آف ایکیوٹین نے عثمان سے خط و کتابت اور تحائف کے ذریعہ صلح و دوستی کی بنیاد قائم کی اور رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ڈیوک آف ایکیوٹین نے اپنی نہایت حسین و جمیل اور شہرئہ آفاق لڑکی کی شادی عثمان کے ساتھ اس شرط پر کر دی کہ لڑکی اپنے آبائی دین عیسوی پر قائم رہے گی اور عثمان اس کو مسلمان ہونے پر مجبور نہ کرے گا‘ ۱؎اس لڑکی کے معاوضہ میں ڈیوک آف ایکیوٹین نے عثمان سے یہ ۱؎ تاریخ میں ہمیں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جب عیسائیوں نے حالات کے دبائو کے تحت یا جب انہیں شکست یا اپنے ملک پر مسلمانوں کے خوف لاحق ہوا تو انہوں نے مسلم امراء کو یہ پیشکش کر دی کہ ہم اپنی لڑکی عہدنامہ بھی لکھوا لیا کہ عثمان اپنی فوجوں کو کبھی ڈیوک کے خلاف استعمال نہ کرے گا۔ عثمان لخمی کا قتل اب جب کہ امیر اندلس عبدالرحمن غافقی نے فرانس پر حملہ آور ہونے کے لیے فوجی تیاری کے لیے جبل البرتات کو عبور کرنا چاہا تو عثمان کے پاس حکم بھیجا کہ اپنی متعلقہ فوج کو ہماری رکاب میں شامل ہونے اور اپنے علاقہ میں سامان رسد کی فراہمی کے کام کے لیے مستعد رکھو‘ عثمان نے اس حکم کی تعمیل میں عذر کیا‘ اور اول حیلے بہانے کرتا رہا‘ لیکن جب عبدالرحمن غافقی قریب پہنچا تو عثمان جبل البرتات کے دروں میں اسلامی لشکر کے روکنے اور مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گیا‘ نتیجہ یہ ہوا کہ عبدالرحمن نے ایک سردار کو تھوڑی سی فوج دے کر آگے روانہ کیا‘ عثمان شکست کھا کر بھاگا‘ اور پہاڑ کے دشوار گزار مقامات میں جا چھپا‘ اس سردار نے تعاقب جاری رکھ عثمان کو قتل کیا اور اس کی عیسائی بیوی کو گرفتار کر کے عبدالرحمن کے پاس لے آیا۔ اس طرح جبل البرتات کی اس رکاوٹ کو دور کر کے اسلامی لشکر فرانس کے ہموار میدان میں داخل ہوا‘ شہر ناربون تک اسلامی حکومت کی سرحد تھی‘ اس شہر سے آگے بڑھ کر اسلامی لشکر نے شہروں کو فتح کرنا شروع کیا‘ فرانس کا مشہور بندرگاہ اور نامور شہر بورڈیلو بھی مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا‘ اس زمانہ میں ڈیوک ایکیوٹین مجبور ہو کر چارلس مارٹل کی سیادت کو تسلیم کر چکا تھا‘ وہ اپنی تمام فوجوں کو لیے ہوئے چارلس مارٹل کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلامی لشکر کے اس سیلاب کی روک تھام کے لیے اس کو آمادہ کیا‘ چارلس مارٹل نے بڑی مستعدی اور ہوشیاری کے ساتھ زیادہ سے زیادہ جس قدر افواج اور سامان جنگ فراہم کر سکتا تھا فراہم کیا‘ عیسائیوں کا جم غفیر اور یورپ کے نامور شجاع و بہادر لوگ اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے اور اس جنگ کو مذہبی جنگ سمجھ کر پادریوں نے عیسائیوں کو خوب پر جوش تقریروں کے ذریعہ ابھارا‘ مسلمانوں نے دریائے گرون کو عبور کیا‘ اور دریائے داردون کے کنارے پہنچے‘ یہاں عیسائی لشکر نے مقابلہ کیا‘ مگر مسلمانوں کے مقابلے میں اس کو شکست فاش حاصل ہوئی اور مسلمانوں نے شہر پائی ٹیرس پر قبضہ کیا۔ کی شادی آپ سے کر دیتے ہیں۔ اس سے ان کے بہت سے مقاصد ہوں گے تاہم دو مقاصد تو بالکل واضح ہیں : ایک یہ کہ مسلمان امراء اور علاقوں اور افواج وغیرہ کی جاسوسی اور ان کی کمزو ریوں سے آگاہی‘ دوسرا مقصد اپنے ملک کو مسلمانوں کے قبضہ سے محفوظ کرنا اور مسلم افواج کی چڑھائی کو ٹال کر مناسب جنگی تیاریوں میں مصروف ہونا ہوتا تھا۔ فلسطین کی صلیبی جنگوں میں عیسائیوں نے اپنی لڑکیوں