تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چل سکتا ہوں۔ باب السیدہ یہاں سے زیادہ دور ہے مگر باب الصنع یہاں سے قریب ہے اگر باب الصنع کے کھول دینے کی اجازت دیں تو میں اس دروازے سے بہ آسانی حاضر دربار ہو سکوں گا۔ باب الصنع ہمیشہ بند رہتا تھا۔ اور کسی خاص موقعہ پر اس کے کھولنے کی اجازت ہوتی تھی۔ ابو ابراہیم اس کے بعد پھر اپنے وعظ میں مصروف ہو گیا۔ اور چوبدار یہ پیغام بھی خلیفہ تک پہنچا کر خلیفہ کے حکم سے آ کر مسجد میں بیٹھ گیا جب ابو ابراہیم اپنا وعظ ختم کر چکا تو چوبدار نے غرض کیا کہ باب الصنع آپ کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ اور امیر المومنین آپ کے منتظر ہیں۔ ابو ابراہیم جب باب الصنع پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہاں امراء و زراء اس کے استقبال کے لیے موجود ہیں۔ دربار میں گیا اور خلیفہ سے باتیں کر کے اسی دروازے سے عزت و احترام کے ساتھ واپس آیا۔ حکم کے عہد حکومت کی امتیازی خصوصیت خلیفہ حکم ثانی کو بجا طور پر اندلس کا سب سے بڑا خلیفہ کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کے زمانے میں رعب و وقار سلطنت‘ امن و امان ملک‘ وسعت سلطنت۔ سر سبزی و شادابی‘ مال و دولت‘ تجارت وغیرہ چیزیں اپنے معراج کمال کو پہنچی ہوئی تھیں۔ اور سب سے زیادہ قابل تعریف اور قابل توجہ چیز علم و تعلم کی گرم بازاری تھی۔ علم کا آفتاب قرطبہ کے آسمان پر نصف النہار کو پہنچا ہوا تھا۔ اور یہ وہ فخر ہے کہ خلیفہ حکم ثانی کے مقابلہ میں ہارون و مامون و منصور بھی‘ پیش نہیں کر سکتے۔ خلیفہ حکم عالم بادشاہوں اور علم پرور سلاطین انجمن کا صدر اعظم ہونے کی وجہ سے فرماں روایان عالم میں خصوصی امتیاز رکھتا ہے۔ لیکن حیرت و استعجاب کی کوئی انتہا باقی نہیں رہتی۔ جب اس بات پر غور کیا جاتا ہے کہ ایسے ذی علم‘ ایسے ذی ہوش ایسے عقل مند خلیفہ کے تمام علم و عقل کو محبت پدری نے مغلوب کر لیا۔ اور اس نے اپنے ایسے بیٹے کو اپنا جانشین تجویز کیا جو اس کی وفات کے وقت صرف گیارہ سال کی عمر رکھتا تھا۔ خلافت و سلطنت میں وراثت کو دخل دینے کی لعنت سے محفوظ رہنے کی توقع اگر ہو سکتی تھی تو حکم ثانی جیسے سمجھ دار خلیفہ سے ہی ہو سکتی تھی۔ مگر افسوس ہے کہ اس معاملہ میں وہ کامیاب ثابت نہیں ہوا۔ اور مامون الرشید عباسی اس سے بازی لے گیا۔ اس نے اول تو اپنے خاندان کی بھی پروا نہیں کی اور ایک علوی کو اپنا ولی عہد بنایا۔ لیکن جب وہ ولی عہد خلافت مامون کے سامنے ہی فوت ہو گیا تو اس کے بعد اس کا بھائی معتصم اس کا جانشین ہوا۔ خلیفہ حکم ثانی کا بھائی مغیرہ ہر ایک اعتبار سے حکومت و سلطنت کی قابلیت رکھتا اور حکم ثانی کا بجا طور پر جانشین ہو سکتا تھا۔ مگر حکم ثانی مغیرہ کو محروم رکھ کر اپنے نابالغ بیٹے کو ولی عہد بنا کر اپنے آپ کو خلفائے اندلس کا آخری خلیفہ بنایا۔ حکم کے بعد بھی برائے نام خاندان بنو امیہ میں چند روز خلافت و حکومت رہی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حکم ثانی کے فوت ہوتے ہی بنو امیہ کی حکومت و خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔ خلیفہ حکم نے اپنے بیٹے کو ولی عہد خلافت بناتے ہوئے محمد بن ابی عامر کو اس کا اتالیق تجویز کر دیا تھا۔ لیکن اس اتالیقی یا وزارت کا تعلق شہزادہ ہشام کی جاگیر اور اس کے عہد ولی عہدی ہی سے تھا۔ یہ مطلب نہ تھا کہ ہشام بن حکم تخت نشین خلافت ہونے کے بعد بھی محمد بن ابی عامر کو اپنا وزیر بنائے۔ اور عہدہ حجابت عطا کرے کیونکہ ایک خلیفہ کے فوت ہونے سے اس کے حاجب کا معزول ہونا ضروری نہ تھا۔ جب تک نیا خلیفہ اس کو خود معزول نہ کر دے۔