تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور اس کے چچیرے بھائیوں اور ہمرائیوں کی ایک بڑی جماعت کو تلوار کے گھاٹ اتارا۔ اس کے بعد ہی جزیرہ صقلیہ میں بغاوت ہوئی۔ اور اہل صقلیہ نے اپنے گورنر علی بن عمرو کو جو حسین بن خزیر کے بعد مقرر ہوا تھا۔ صقلیہ سے نکال کر خلیفہ مقتدر عباسی کی خدمت میں درخواست بھیجی کہ ہم فرماں برداری قبول کرتے ہیں۔ یہ خبر پا کر ۳۰۴ھ میں عبیداللہ نے حسن بن خزیر کو جنگی جہازوں کا ایک بیڑہ دے کر اہل صقلیہ کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ ادھر اہل صقلیہ کے سردار احمد بن قہرب نے سخت مقابلہ کے بعد حسن بن خزیر کو شکست دے کر قتل کیا‘ مگر اس کے بعد اہل صقلیہ کو خوف پیدا ہوا کہ عبیداللہ کی مخالفت کے بعد ہمارا محفوظ رہنا دشوار ہے۔ انھوں نے خود ہی اپنے سردار احمد بن قہرب کو گرفتار کر کے عبیداللہ کے پاس بھیج دیا۔ اور اپنی خطائوں کی معافی چاہی۔ عبیداللہ نے احمد کو قتل کرا دیا۔ اور صقلیہ کی حکومت پر علی بن موسیٰ بن احمد کو مامور کر کے بھیجا۔ شہر مہدیہ کی بنیاد عبیداللہ مہدی چونکہ شیعہ اسماعیلیہ اور امام مہدی ہونے کا مدعی تھا۔ لہٰذا اس کو ہمیشہ خطرہ رہتا تھا۔ کہ میرے خلاف بغاوت نہ پھوٹ پڑے۔ کیونکہ افریقہ و قیروان میں تمام آدمی اس کے ہم عقیدہ نہ تھے اس لیے اس نے مناسب سمجھا کہ کسی موقعہ پر ایک شہر آباد کر کے اپنا دارالحکومت بنائے۔ چنانچہ ۳۰۳ھ میں اس نے ساحلی علاقہ کا دورہ کر کے سر زمین برکصورہ کے قریب ایک جزیرہ کو پسند کر کے وہاں ایک شہر کی بنیاد رکھی۔ اور اس کا نام مہدیہ تجویز کیا۔ شہر مہدیہ کی شہر پناہ نہایت مضبوط بنوائی اور دروازوں میں لوہے کے کواڑ لگوائے۔ ۳۰۶ھ میں اس شہر کی تعمیر تکمیل کو پہنچی۔ اور عبیداللہ مہدی نے ہنس کر کہا۔ کہ آج مجھ کو بنی فاطمہ کی طرف سے اطمینان ہوا کہ وہ اب دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رہ سکیں گے۔ اسی سال اس نے کشتیاں بنانے کا ایک کار خانہ جاری کیا۔ اور پہلے ہی سال نو سو کشتیاں تیار کر ا کر ایک زبردست جنگی بیڑہ تیار کیا۔ ۳۰۷ھ میں اس نے اپنے بیٹے ابوالقاسم کو اسکندر یہ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کیا۔ ابوالقاسم نے جاتے ہی اسکندریہ اور دریائے نیل کے ڈلٹا پر قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کا حال جب بغداد میں خلیفہ مقتدر کو معلوم ہوا۔ تو اس نے پھر مونس خادم کو فوج دے کر مصر کی جانب روانہ کیا۔ بہت سی لڑائیوں‘ اور زور آزمائیوں کے بعد مونس کو فتح اور ابوالقاسم کو شکست حاصل ہوئی۔ ابوالقاسم ابھی مصر میں لڑ ہی رہا تھا کہ عبیداللہ نے اس کی مدد کے لیے اسی کشتیوں کا ایک بیڑہ مہدیہ سے روانہ کیا۔ اس جنگی بیڑہ کے افسر سلیمان خادم اور یعقوب کتامی تھے۔ ابھی یہ بیڑہ پہنچا نہ تھا کہ ابوالقاسم شکست خوردہ وہاں سے بھاگا۔ اس بیڑہ والوں کو ابو القاسم کے فرار ہونے کی اطلاع نہ ہوئی۔ راستے میں بھی ایک دوسرے سے نہ ملے۔ ابوالقاسم بچا ہوا نکل گیا۔ اور یہ امدادی بیڑہ بڑھا ہوا آگے چلا گیا۔ وہاں مونس کے بیڑہ سے مقابلہ ہوا۔ جس میں صرف پچیس کشتیاں تھیں۔ اس عبیدی بیڑہ کو شکست ہوئی اور سلیمان و یعقوب دونوں گرفتار ہو گئے کشتیوں کو مونس کی فوج نے آگ لگا کر جلا دیا۔ آدمی سب مقتول ہوئے۔ اگلے سال یعنی ۳۰۸ھ میں عبیداللہ مہدی نے مضالہ بن حبوس کر ملک مراکش پر حملہ کرنے کے لیے مغرب کی جانب روانہ کیا۔ یحییٰ بن ادریس بن عمرو سے متعدد لڑائیاں ہوئیں۔ آخر یحییٰ نے عبیداللہ مہدی کی اطاعت قبول کر لی۔ اور عبیداللہ نے موسیٰ بن ابی العافیہ مکناسمی کو صوبجات مراکش کا نگران مقرر کر دیا۔ ۳۰۹ھ میں مراکش کے