تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قسطنطنیہ پہنچنا چاہتا تھا‘ اس طرح مسلمانوں کو وہ خطرہ اور ہلاکت میں ڈالنے کی جرأت کرتا‘ نیز یہ کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے موسیٰ کو اندلس سے یہی خبر سن کر طلب کیا تھا کہ وہ بلا اجازت یورپ کے ملکوں پر حملہ آور ہونے کا قصد کر چکا ہے‘ اسی لئے خلیفہ سلیمان نے موسیٰ بن نصیر کو زجروتوبیخ کیا کہ تو نے خودرائی و خود سری کی راہ سے مسلمانوں کی فوج کو کیوں خطرے میں مبتلا کرنا چاہا تھا‘ ابن خلدون کا یہ بیان بالکل قرین قیاس ہے‘ اس میں اس میز والی کہانی کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ موسیٰ بن نصیر اندلس کی حکومت اپنے بیٹے عبدالعزیز کو اور افریقیہ و مراکش کی حکومت بھی اپنے بیٹوں عبداللہ و مروان کو سپرد کر آیا تھا‘ یعنی ممالک مغربیہ سب موسیٰ کی اولاد کے تصرف و قبضے میں تھے‘ اس لئے موسیٰ بن نصیر سے سختی کے ساتھ خلیفہ کا محاسبہ کرنا خطرہ سے خالی نہ تھا اور اسی لئے ممالک مغربیہ میں بھی کسی قسم کی برہمی پیدا نہیں ہوئی‘ یہ بات بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے کہ خلیفہ سلیمان نے ایک طرف موسیٰ کو ایسی سخت تنبیہ کی دوسری طرف موسیٰ کے بیٹوں کی معزولی کو ضروری نہ سمجھا‘ ہاں چند روز کے بعد خلیفہ سلیمان نے محمد بن یزید کو تمام ممالک مغربیہ کا وائسرائے مقرر کر کے قیروان بھیج دیا تھا کہ وہ ممالک مغربیہ کی نگرانی کرے‘ مگر اندلس کی حکومت بدستور عبدالعزیز بن موسیٰ کے قبضہ میں رکھی۔ اندلس کا پہلا حکمراں طارق و موسیٰ دونوں ملک اندلس کے فتح کرنے والے تھے اور یہ دونوں سردار جتنے دن اندلس میں رہے ملکوں‘ شہروں اور قلعوں کے فتح کرنے اور عیسائی امراء سے عہد نامے لکھوانے اور اسلامی حکومت کے تسلیم کرانے میں مصروف رہے‘ ان دونوں کو فاتح اندلس کہا جا سکتا ہے‘ اندلس کا پہلا حکمراں موسیٰ بن نصیر کے بیٹے عبدالعزیز کو سمجھنا چاہیئے‘ اس کے بعد اندلس کے حاکم یا گورنر یکے بعد دیگرے کبھی دربار خلافت سے‘ کبھی ممالک مغربیہ کے وائسرائے حاکم قیروان کے دربار سے اور کبھی مسلمانان اندلس کے انتخاب سے مقرر ہوتے رہے‘ اندلس کے ان حاکموں کو امیران اندلس کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ --- باب : ۳امیران اندلس عبدالعزیز بن موسیٰ موسیٰ بن نصیر کے اندلس سے رخصت ہونے کے بعد اندلس کے اکثر ان شہروں نے جو اطاعت کا اظہار کر چکے تھے بغاوت کی‘ ان بغاوتوں کے فرو کرنے اور دوبارہ عیسائیوں کو مطیع و منقاد بنانے میں امیر عبدالعزیز نے پوری مستعدی اور ہوشیاری کا ثبوت دیا‘ مسلمانوں کی فوج اتنے بڑے ملک میں بہت ہی تھوڑی تھی‘ اسی لیے صوبوں اور شہروں کی حکومت پر جن افسروں کو مقرر کیا گیا تھا‘ اس کے پاس امن و امان قائم رکھنے کے لیے حسب ضرورت فوج نہیں رکھی جا سکتی تھی‘ اسی لیے عیسائیوں کو