تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہارون الرشید کی طرف سے دوستی بڑھانے اور تحف و ہدایا بھیجنے کے ذریعہ ہمت افزائی ہوئی۔ اس نئی ریاست گاتھک مارچ نے جبل البرتات کے مشرقی و جنوبی حصے پر بھی قبضہ جمایا اور شمالی اندلس کے عیسائیوں نے اس کے لیے ہر قسم کی سہولت بہم پہنچائی۔ غرض یہ نئی ریاست ایسٹریاس کی ریاست کے نمونہ پر ایک پہاڑی ریاست بن گئی اور جس طرح ایسٹریاس کی ترقی و طاقت میں پادریوں نے خاص طور پر اضافہ کی کوشش کی تھی اسی طرح اس ریاست کے طاقتور بنانے کو بھی مذہبی کام قرار دیا گیا وہ عیسائی جو ایکیوٹین‘ ایسٹریاس یا فرانس کی حکومتوں اور حاکموں سے کسی سبب سے ناراض و ناخوش تھے وہ بجائے اس کے کہ مسلمانوں کی حکومت میں آ کر آباد ہوتے اس نئی ریاست میں آ آ کر آباد ہونے لگے اور کوہی علاقہ جو بالکل ویران و غیر آباد پڑا ہوا تھا آباد اور پر رونق ہونے کے علاوہ طاقتور بھی خوب ہو گیا۔ غدار مسلم عاملوں کی عیسائیوں کی ہمت افزائیاں ۱۸۴ھ کے آخر میں حکم کو مشکل سے اطمینان حاصل ہوا تھا کہ چند ہی روز کے بعد ۱۸۵ھ میں عیسائیوں نے شمالی اندلس میں پھر ہلچل پیدا کرا دی اور بعض شمالی شہروں کے عاملوں نے شارلیمین کو خلیفہ بغداد کا دوست اور ایجنٹ سمجھ کر اور اس کی حمایت و اعانت کو جائز جان کر سلطان حکم کے خلاف آمادہ ہو جانا ہی ثواب کا کام سمجھا۔ کیونکہ سلطان حکم کی مذہبیت اور دینداری پر عام لوگوں کو شک تھا اور اکثر اس پر اعتراضات ہوتے رہتے تھے اس موقعہ پر ان جاسوسوں نے بھی جو خلیفہ بغداد کی طرف سے اندلس میں مامور تھے۔ کام کرنے کا خوب موقعہ پایا۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ وشقہ‘ گیرون‘ لون‘ لریدہ‘ اور ترکونہ وغیرہ شمالی شہروں کے عاملوں نے شاہ فرانس کو اپنا بادشاہ تسلیم کر کے سلطان حکم کی فرمانبرداری سے انکار اور شارلیمین کے احکام کی اطاعت کا اقرار کیا۔ اس طرح یکایک ریاست ’’گاتھ مارچ‘‘ اندلس کے شمالی میدانوں میں وسیع ہو کر اور ان مسلمان عاملوں کو مطیع پا کر خوب طاقتور اور مضبوط ہو گئی۔ اسی طرح جلیقیہ اور ساحل بسکی کے عاملوں نے جس میں حاکم سرقسطہ بھی شامل تھا۔ عیسائی سلاطین کی اطاعت کا اعلان اور حکم سے بغاوت کا اظہار کیا۔ اسی نئی مصیبت کے مقابلے کو سلطان حکم خود اس لیے قرطبہ سے حرکت نہ کر سکا کہ یہاں دارالحکومت کی بھی ہوا خراب ہو رہی تھی اور ضرورت تھی کہ سلطان دارالحکومت میں مقیم رہ کر بغاوت و سرکشی کے ان جراثیم کا علاج کرے جو ملک کے گوشہ گوشہ میں سرایت کر گئے تھے اور جن کو خود سلطان کے رشتہ داروں اور مسلمانوں نے تقویت پہنچائی تھی۔ شمالی حصہ ملک کے بچانے اور عیسائیوں کے قبضہ سے نکالنے کے لیے اپنے سپہ سالار ابراہیم کو روانہ کیا ابراہیم نے اول جلیقیہ اور سرقسطہ کی جانب فوج کشی کی اور اس علاقے کو بہت سی لڑائیوں اور خون ریزیوں کے بعد عیسائیوں سے واپس چھینا۔ باغی عامل عیسائی فوج اور عیسائی باشندوں کے ساتھ بھاگ بھاگ کر شارلیمین کے پاس فرانس پہنچے اور ان کو اندلس پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دی۔ ابراہیم بھی جلیقیہ و سرقسطہ وغیرہ کی طرف اس طرح مصروف ہوا کہ اندلس کے شمالی و مغربی حصے کی طرف متوجہ نہ ہو سکا۔ ان مسلمان عاملوں نے جو شارلیمین کے پاس پہنچ گئے تھے اس کو مشورہ دیا کہ اندلس کے قدیمی گاتھک دارالسلطنت کو آپ بآسانی قبضہ میں لا سکتے ہیں اور ہم اس کام میں آپ کی رہنمائی اور امداد کرنے کو موجود ہیں۔ مسلمان عاملوں کی