تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو خریدا۔ خلیفہ کو جب اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو اس نے قاضی کو بلا کر مکان کے منہدم کرانے کا سبب دریافت کیا۔ قاضی منذر نے کہا۔ جس وقت میں نے مکان کے منہدم کرنے کا حکم دیا ہے اس وقت میرے زیر نظر قرآن کی یہ آیت تھی: {فَانْطَلَقَا حَتّٰٓی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیْنَۃِ خَرَقَھَا قَالَ اَخَرَقْتَھَا لِتُغْرِقَ اَھْلَھَا لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا اِمْرًا } (الکھف : ۱۸/۷۱) ’’تو دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو (خضر نے) کشتی کو پھاڑ ڈالا۔ (موسیٰ نے) کہا : ’’کیا آپ نے اس کو اس لیے پھاڑا ہے کہ سواروں کو غرق کر دیں! یہ تو آپ نے بڑی (عجیب) بات کی۔‘‘ خلیفہ یہ سن کر خاموش ہو گیا۔ اور اس روز سے قاضی منذر کی اور زیادہ عزت کرنے لگا۔ اس واقعہ سے قاضی اور خلیفہ دونوں کی پاک باطنی کا ثبوت ملتا ہے قاضی منذر ۳۵۵ھ میں خلیفہ ناصر سے پانچ سال بعد فوت ہوئے۔ امیر المومنین خلیفہ عبدالرحمن ثالث ناصرلدین اللہ نے ۲ رمضان المبارک ۳۵۰ھ کو ۷۲ سال چند ماہ کی عمر میں بمقام قصر الزہراء وفات پائی۔ مال گذاری کی آمدنی اس خلیفہ کے عہد میں دو کروڑ چون لاکھ اسی ہزار دینار سالانہ مال گذاری داخل خزانہ عامرہ ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ سات لاکھ ۶۵ ہزار دینار مختلف ذرائع سے وصول ہوتے تھے یہ تمام آمدنی ملک اور رعایا پر ہی خرچ کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ جو روپیہ بطور خراج و جزیہ عیسائیوں اور یہودیوں سے وصول ہوتا تھا۔ وہ خاص خزانہ شاہی میں داخل کر دیا جاتا تھا۔ اس آمدنی کی کوئی تعداد معین نہ تھی۔ اس میں سے ایک ثلث فوج اور اہل کاران سلطنت کی تنخواہوں میں خرچ ہوتا تھا۔ ایک ثلث خاص سلطان کی جیب خاص کے لیے مقرر تھا۔ باقی کل رقم عمارتوں‘ پلوں اور سڑکوں وغیرہ پر خرچ کی جاتی تھی۔ خلیفہ کی وفات اس خلیفہ کی وفات کے بعد اس کے کاغذات میں سے خلیفہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک یادداشت نکلی جس میں خلیفہ نے اپنے پچاس سالہ عہد حکومت کے ان دنوں کا حال لکھا تھا۔ جن میں خلیفہ کو کوئی فکر نہ تھا اور ایسے دنوں کی تعداد جو افکار سے خالی تھے صرف چودہ تھی۔ وفات کے وقت خلیفہ کے گیارہ لڑکے موجود تھے۔ جن میں حکم بن عبدالرحمن ولی عہد تھا۔ عبدالرحمن ثالث کے عہد حکومت پر تبصرہ خلیفہ عبدالرحمن ثالث کا زمانہ اندلس کی حکومت اسلامیہ کا نہایت شاندار زمانہ تھا۔ ملک میں ہر طرف امن و امان کا دور دورہ تھا۔ تجارت کی بہت بڑی ترقی تھی۔ اہل اندلس نے افریقہ و ایشیا کے دور دراز مقامات پر اپنی تجارتی کوٹھیاں قائم کر لی تھیں۔ بحری طاقت میں کوئی ملک اور کوئی قوم اندلس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ تمام سمندروں پر گویا اندلسی مسلمانوں کی حکومت تھی۔ اس خلیفہ نے اپنے سرداروں اور اہل کاروں کو شاہی اختیارات نہیں دئیے بلکہ وہ خود ہر ایک اہم اور ضروری معاملہ کی طرف متوجہ ہوتا اور اہل کاروں پر کاموں کو چھوڑ کر بے فکر نہیں ہو جاتا تھا۔ اس نے ان عرب سرداروں اور فقیہوں کی طاقت کو جو حکومت و سلطنت پر حاوی تھے۔ بتدریج کم کر کے