تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا نتیجہ یہ ہوا کہ مصریوں نے جو پہلے سے مغلوں پر چیرہ دست تھے۔ اپنی حدود سے نکل کر سلطان محمود غازان خان کے مقبوضہ علاقہ پر حملہ کیا۔ اور ساتھ ہی اس مصری فوج نے مسجدوں کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے قتل عام سے بھی کوئی دریغ نہ کیا۔ یہ سن کر ۶۹۹ھ میں سلطان محمود غازان خان نے نوّے ہزار مغلوں کی فوج لے کر ملک شام پر حملہ کیا۔ سلطان مصر بھی فوج لے کر مقابلہ پر آیا۔ حمص کے قریب معرکہ کا رزار گرم ہوا۔ سلطان محمود غازان نے مصریوں کو شکست دے کر بھگا دیا۔ اور دمشق و شام پر قابض و متصرف ہو کر شام کے بڑے بڑے شہروں میں ایک ایک امیر بطور نائب السلطنت مقرر کیا۔ اور خود واپس چلا آیا۔ سلطان مصر ناصر نے فوج لے کر دوبارہ ملک شام پر فوج کشی کی۔ شام کے مغل سرداروں نے خوب جم کر مقابلہ کیا۔ مگر شکست یاب ہوئے اور امیر تیتاق میدان جنگ میں شجاعت و بہادری کی داد دیتا ہوا گرفتار ہوا۔ یہ سن کر سلطان غازان خان نے پھر ملک شام پر حملہ کا قصد کیا۔ لیکن انہی ایّام میں خبر پہنچی کہ جوجی خان کی اولاد جو قبچاق کی طرف بر سر حکومت ہے۔ دعویٰ کرتی ہے کہ ہلاکو خان اور اس کی اولاد کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ ایران و خراسان وغیرہ پر خود مختارانہ حکومت کرے یہ حق ہمارا ہے اور ہم غازان خان کو ملک سے بے دخل کر دیں گے۔ اس کے بعد آپس کی مخالفتوں نے غازان خان کو شام کی طرف متوجہ ہونے کا موقعہ نہ دیا۔ سلطان محمود غازان کی وفات یہاں تک کہ نواح قزوین میں بتاریخ ۱ شوال یک شنبہ ۷۰۳ھ کو سلطان محمود غازان خان نے وفات پائی۔ اس سلطان کے عہد میں اسلام نے مغلوں کے اندر خوب رواج پایا۔ اور مسلمانوں کو اس بادشاہ عالی جاہ سے بہت فائدہ پہنچا۔ مرتے وقت اس نے وصیت کی کہ میرے بعد میرا بھائی اولجائتو معروف بہ سلطان محمد خدا بندہ تخت نشین ہو۔ سلطان محمد اولجایتوا بن ارغون خان ابن اباقاخان سلطان محمود خان کی وفات پر امیر مرقداق نے جو الجائتو سے ناخوش تھا۔ ایک دوسرے شہزادے الافرنگ کو تخت نشین کرنا چاہا۔ یہ حال جب امیر اسمٰعیل ترخان کو معلوم ہوا تو اس نے الجایتو کو اطلاع کی۔ اس نے فوراً الافرنگ اور مرقداق کو گرفتار کر کے قتل کیا۔ اور ماہ ذی الحجہ ۷۰۳ھ میں تخت نشین ہوا۔ اور اپنا لقب سلطان محمد خدا بندہ رکھا۔ بڑے بڑے امراء مثلاً امیر قتلق شاہ امیر چوپان سلدوز‘ امیر فولاد‘ امیر حسین بیگ‘ امیر سونج‘ امیر مولائی‘ امیر سلطان‘ امیر رمضان‘ امیر الغو نے تخت نشینی کے وقت نذریں دکھلائیں۔ سلطان محمد خدا بندہ نے تخت نشین ہوتے ہی حکم دیا کہ شریعت اسلام کی پابندی کا تمام ملک میں خاص طور پر لحاظ رکھا جائے اور خلاف شرع تمام مراسم کو مٹا دیا جائے۔ سلطان محمد خدا بندہ کی حکومت و سلطنت کو بہت جلد قبولیت عامہ حاصل ہو گئی۔ اور روس و خوارزم و بلغاریہ و روم و شام سے لے کر قراقورم۔ سندھ اور عراق تک تمام ممالک میں اس کی بادشاہی تسلیم کی گئی۔ سلطان محمد خدا بندہ کے عہد حکومت میں سلطنت مغلیہ اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی۔ اور اس کی سلطنت و حکومت سے مخالفت وانحراف کی کسی کو جرأت نہ ہوئی۔ سلطان محمد کی وفات آخر تیرہ سال حکومت کرنے کے بعد بہ عمر ۳۶ سال شب عیدالفطر ۷۱۶ھ کو اس نیک دل اور باخدا سلطان نے وفات پائی۔ اس نے خود ایک شہر سلطانیہ کے نام سے آباد کر کے اپنا دارالسلطنت بنایا تھا۔ مرنے کے بعد اسی شہر میں مدفون ہوا۔ اس کے بعد اس کا