تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اب محرم ۴۰۷ھ میں مستعین کے قتل ہونے پر اس خاندان کی حکومت کا نام و نشان ہی اندلس سے جاتا رہا۔ مگر برائے نام ۴۲۸ھ تک بعض امویوں نے حکومت و سلطنت کے دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی بعض برائے نام کامیاب بھی ہوئے۔ مگر ۴۲۸ھ کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ۴۰۷ھ میں علی بن حمود (جس کا ذکر آگے آتا ہے) مستعین کو قتل کرنے کے بعد قرطبہ پر قابض اور تخت سلطنت پر متمکن ہوا ۴۱۳ھ تک وہ اور اس کا بھائی قاسم قرطبہ میں حکمران رہا۔ ۴۱۳ھ کے آخر ایّام میں ابن حمود کی حکومت منقطع ہوئی۔ اور اہل قرطبہ کی جمایت و اعانت سے عبدالرحمن بن ہشام بن عبدالجبار برادر مہدی ماہ رمضان ۴۱۴ھ میں قرطبہ کے تخت پر بیٹھا اور ’’مستظہر‘‘ کا خطاب یا لقب اختیار کیا۔ اس کی حکومت کو ابھی دو مہینے گزرے تھے۔ کہ محمد بن عبدالرحمن بن عبیداللہ بن عبدالرحمن فتح مند ہو کر ’’مستکفی‘‘ کے لقب سے تخت نشین ہو کر قرطبہ میں حکومت کرنے لگا۔ ۴۱۶ھ میں یحییٰ بن علی بن حمود نے حملہ کیا مستکفی شکست کھا کر بلاد شمالی کی جانب بھاگ گیا۔ اور وہیں فوت ہوا۔ یحییٰ بن علی بن حمود قرطبہ میں ۴۱۷ھ تک حکومت کرتا رہا۔ اس کے بعد وزیر السلطنت ابو محمد جمہور بن محمد بن جمہور نے ہشام بن محمد اموی کی غائبانہ بیعت کی ہشام بن محمد ان دنوں ابن ہود کے پاس مقام لریدہ میں مقیم تھا۔ یہ سن کر کہ میرے نام پر بیعت کی گئی ہے۔ لریدہ سے مقام بدنت میں چلا آیا یہاں تین سال مقیم رہا اور اپنا لقب ’’معتمدباللہ‘‘ رکھا۔ قرطبہ میں دونوں روسائے قرطبہ مل کر حکومت کرتے۔ اور ہشام بن محمد کو اپنا خلیفہ مانتے رہے۔ جب ان امرا میں اختلاف اور لڑائی جھگڑے آپس میں نمودار ہو تو ۴۲۰ھ میں ہشام بن محمد اموی کو مقام برنت سے قرطبہ میں لائے اور باقاعدہ تخت نشین کر کے اس کی بیعت کی ۴۲۲ھ میں لشکریوں نے بغاوت و سرکشی اختیار کر کے ہشام بن محمد کو معزول کر دیا۔ ہشام معزول کر قرطبہ سے لریدہ چلا آیا اور ۴۲۸ھ میں یہیں فوت ہو گیا۔ ہشام بن محمد پر خاندان بنو امیہ کی برائے نام حکومت و خلافت کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ اموی حکومت پر تبصرہ عبدالرحمن اول نے ۱۳۸ھ میں اندلس کے اندر داخل ہو کر اپنی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کی اولاد میں ہشام بن محمد کے فوت ہونے پر ۴۲۸ھ میں اس حکومت کا دو سو نوے (۲۹۰) سال کے بعد بالکل خاتمہ ہو گیا۔ عبدالرحمن اول کی اولاد میں بعض ایسے باحوصلہ اور اولوالعزم فرماں روا ہوئے کہ انہوں نے اندلس کو فخر الممالک بنا دیا نہ صرف ملک کی سرسبزی و شادابی میں حیرت انگیز کارنامے دکھائے بلکہ انہوں نے علوم و فنون کے بھی دریا بہائے کہ آج تک تمام دنیا ان کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہے اور پھر بھی حق ستائش ادا نہیں ہو سکا موجودہ یورپ کی عملی ترقیات تمام و کمال انہی علم دوست اور علم پرور اموی فرماں روائوں کی رہین منت ہے۔ قرطبہ میں خلفائے اندلس نے ایسی علمی مشعل روشن کی تھی۔ جس سے تمام یورپ مستفید ہوا۔ انہی خلفائے اندلس کی علمی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج یورپ تمام دنیا کو علم و ہنر سکھانے کا مدعی ہے۔ خلفائے اندلس کی شوکت و طاقت کا بھی یہ عالم تھا کہ تمام یورپ ان سے کانپتا اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سلاطین یورپ ہر قسم کی ذلتیں برداشت کرنے پر آمادہ ہو جاتے تھے۔ اس جگہ غور کرنے کے قابل بات یہ ہے کہ ایسی شاندار سلطنت اور ایسی عظیم الشان اسلامی حکومت کے برباد ہونے کا سبب کیا تھا؟ اس کا جواب بجز اس کے