تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لکھنے سے پیشتر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسمٰعیل صفوی اور اس کے بادشاہت تک پہنچنے کا حال بیان کر دیا جائے۔ اسمٰعیل صفوی کا حال اسمٰعیل صفوی کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے‘ اسماعیل بن حمید‘ بن جنید‘ بن ابراہیم‘ بن خواجہ علی بن صدرالدین‘ بن شیخ صفی الدین بن جبرئیل۔ اس خاندان میں سب سے پہلے جس شخص نے شہرت و ناموری حاصل کی وہ شیخ صفی الدین تھے جو اردبیل میں سکونت پذیر اور پیری مریدی کرتے تھے انہیں کے نام سے اس خاندان کا نام صفی خاندان مشہور ہوا۔ جب شیخ صفی الدین کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے صدر الدین نے باپ کا خرقہ سنبھالا اور اپنے باپ کے مریدین اور حلقہ اثر میں پیر طریقت تسلیم کئے گئے۔ شیخ صدر الدین سلطان بایزید یلدرم اور تیمور کے ہم عصر تھے تیمور نے ۸۰۴ھ میں سلطان بایزید یلدرم کو شکست دے کر گرفتار کیا تو اس کے ساتھ اور بھی بہت سے ترک سپاہی اس لڑائی میں قید ہوئے‘ تیمور اس فتح کے بعد اردبیل پہنچا تو وہاں عقیدۃ یا مصلحتاً شیخ صدر الدین کی خانقاہ میں بھی گیا اور شیخ سے کہا کہ اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو یا کوئی کام میرے کرنے کا ہو تو فرمائیے میں اس کو ضرور پورا کروں گا۔ شیخ صدر الدین نے کہا کہ جنگ انگورہ میں جس قدر ترک سپاہی تم نے قید کئے ہیں ان سب کو رہا کر دو‘ تیمور نے فوراً ان کے آزاد کر دینے کا حکم دیا یہ ترک قیدی آزاد ہوتے ہی شیخ کے مرید ہو گئے اور اردبیل ہی میں طرح اقامت ڈال کر شیخ صدر الدین کی خدمت گزاری میں مصروف رہنے لگے‘ شیخ صدر الدین نے چونکہ سفارش کر کے ان کو آزاد کرایا تھا اس لئے انھوں نے اس احسان کا بدلہ یہی مناسب سمجھا کہ شیخ کے مریدوں میں شامل ہو کر اپنی بقیہ زندگی شیخ کی خدمت میں گذار دیں۔ جوں جوں زمانہ گذرتا گیا ان ترک قیدیوں کی اولاد بڑھتی گئی اور ساتھ ہی ان کی عقیدت و فرماں برداری شیخ اور شیخ کی اولاد کے ساتھ ترقی کرتی گئی۔ تیمور کی وفات کے بعد تیموری سلطنت اس کی اولاد میں تقسیم ہو کر پارہ پارہ ہو گئی تھی‘ بحیرہ قزوین اور بحیرہ اسود کے درمیانی علاقے یعنی آذر بائیجان میں ترکمانوں کے قبیلہ قراقو نیلو نے تیمور کے بعد ہی اپنی حکومت دوبارہ قائم کر لی تھی‘ اسی طرح کردستان یعنی عراق کا شمالی حصہ ترکمانوں کے دوسرے قبیلہ آق قونیلو کے حصے میں آ گیا‘ ترکمانان آق قونیلو کردستان میں تیمور ہی کے زمانہ سے بطور باج گذار فرماں روا تھے‘ قراقونیلو کا سردار قرایوسف ترکمان تیمور سے برسر پر خاش اور اس کی زندگی میں مصر وغیرہ کی طرف فرار رہا‘ تیمور کی وفات کا حال سنتے ہی واپس آ کر آذر بائیجان کا حاکم نشین شہر تھا اور کردستان کا دارالسطنت دیار بکر تھا‘ شیخ صدر الدین کا پڑپوتا شیخ جنید تھا شیخ جنید کے زمانہ میں مریدوں کی اس قدر کثرت ہوئی کہ جہاں شاہ ابن قرایوسف ترکمان بادشاہ آذربائیجان نے متوہم ہو کر شیخ جنید کو حکم دیا کہ آپ اردبیل سے تشریف لے جائیں اس حکم کی تعمیل میں شیخ جنید اپنے مریدوں کے ساتھ جو سب تقریباً انھیں مذکورہ ترک قیدیوں کی اولاد تھے اردبیل سے رخصت ہو کر دیاربکر کی طرف روانہ ہوا‘ دیابکر یعنی کردستان کا بادشاہ اس زمانہ میں حسن طویل آق قونیلو تھا‘ اس نے جب شیخ جنید کی اس طرح تشریف آوری کا حال سنا تو بہت خوش ہوا اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ شیخ کا استقبال کیا اور عزت و آرام کے ساتھ شیخ اور اس کے مریدوں کو ٹھہرایا‘ چند روز کے بعد حسن طویل نے اپنی بہن کی شادی شیخ جنید سے کر دی‘ ترکمانوں کے ان دونوں قبیلوں یعنی آق قونیلو اور قراقونیلو