تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے سپہ سالاروں نے ہمیشہ میدانوں میں بہادری و فتح مندی کے گھوڑے دوڑائے تھے‘ لیکن غازیان اسلام کے مقابلے میں وہ اسی طرح مغلوب و کمزور ثابت ہوئے جس طرح یرموک کے میدان میں ان کے ہم مذہب قلیل التعداد مسلمانوں سے شکست یاب ہو کر مفرور یا مغلوب ہوئے تھے۔ مسلمانوں کو یہ فتح مبین ۵ شوال ۹۲ھ مطابق ۷۱۱ء میں حاصل ہوئی اسی تاریخ سے اندلس میں اسلامی حکومت کی ابتداء سمجھنی چاہیئے‘ طارق نے اسی روز فتح کی خوشخبری پہنچانے کے لئے امیر موسیٰ بن نصیر کے پاس قاصد روانہ کیا اور خود لشکر اسلام کے دستوں کو اردگر روانہ کر کے صوبۂ اندلسیہ کی فتح کے مکمل کرنے میں مصروف ہوا‘ موسیٰ بن نصیر اس فتح عظیم کا حال سن کر بہت خوش ہوا اور خلیفہ کی خدمت میں بشارت نامہ دمشق کی جانب بھیج کر خود اندلس کی جانب روانہ ہونے کا تہیہ کیا‘ ایک خط طارق بن زیاد کے نام روانہ کیا کہ تم جس قدر حصۂ ملک کو فتح کر چکے ہو اسی پر قابض رہو اور پیش قدمی ترک کر دو‘ اس کے بعد موسیٰ بن نصیر اٹھارہ ہزار کا لشکر لے کر قیروان سے روانہ ہوا‘ قیروان میں اپنی جگہ اپنے بیٹے کو حاکم مقرر کیا‘ جب امیر موسیٰ کا خط طارق کے پاس پہنچا ہے تو وہ جزیرہ نما کا جنوبی صوبہ یعنی صوبہ اندلسیہ فتح کر چکا تھا‘ لیکن جزیرہ نما کے بڑے بڑے مرکزی شہر اور دارالسلطنت طیطلہ عیسائی افواج کی چھائونیاں بنے ہوئے تھے اور اندیشہ تھا کہ عیسائی سردار متحد ہو کر اپنی پوری طاقت سے طارق پر حملہ آور ہونے والے ہیں‘ طارق کے لئے اب سب سے زیادہ ضروری کام یہ تھا کہ وہ بلا تامل شمال کی جانب پیش قدمی کرے اور یکے بعد دیگرے شہروں کو فتح کر کے اس رعب و ہیبت کو جو جنگ وادی لکتہ کے بعد عیسائیوں کے دلوں پر طاری ہے کم نہ ہونے دے طارق نے سرداران لشکر کو جمع کر کے امیر موسیٰ کا حکم سنایا۔ سب نے یہی رائے دی کہ اگر امیر موسیٰ کے اس حکم کی تعمیل کی گئی تو اندیشہ ہے کہ عیسائی ہر طرف سے ہم پر حملہ آور ہو کر فتح اندلس کے کام کو بے حد دشوار بنا دیں گے‘ کونٹ جولین بھی طارق کے ہمراہ موجود تھا اس نے بھی یہی مشورہ دیا کہ اس وقت ملک کے فتح کرنے میں تامل نہ کیا جائے ورنہ پھر کام دشوار ہو جائے گا۔ طارق کی قرطبہ کی جانب پیش قدمی چنانچہ طارق نے قرطبہ کی جانب پیش قدمی کی قرطبہ کا حاکم اندلس کے شاہی خاندان کا ایک شخص تھا‘ اس کے پاس وادی لکتہ کی لڑائی کے مفرورین بھی آ کر جمع ہو گئے تھے‘ اس شہر کا قلعہ بہت زبردست تھا اور اس کا فتح کرنا آسان نہ تھا‘ طارق نے آ کر شہر والوں کے پاس پیغام بھیجا کہ تم صلح کے ساتھ ہمارا قبضہ شہر پر تسلیم کر لو‘ جب جواب انکار میں ملا تو شہر کا محاصرہ کیا گیا‘ اس محاصرہ میں زیادہ وقت صرف کر دینے کو مناسب نہ سمجھ کر طارق نے مغیث الرومی کو قرطبہ کے محاصرہ پر چھوڑا اور خود طیطلہ کی جانب روانہ ہوا۔ طیطلہ کی فتح طیطلہ کو طارق نے بڑی آسانی سے ربیع الثانی ۹۳ھ میں فتح کر لیا طیطلہ کے شاہی خزانہ میں شاہان گاتھ کے پچیس عدد تاج طارق کو ملے‘ ہر ایک تاج پر بادشاہ کا نام اور مدت سلطنت لکھی ہوئی تھی‘ یعنی اس وقت تک پچیس بادشاہ یکے بعد دیگرے گاتھ خاندان کے حکومت کر چکے تھے۔