تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دیا۔ ابو منصور کی حکومت میں بیرونی ملکوں پر قرامطہ کے حملے کم ہوئے۔ اور اندرونی انتظامات میں وہ زیادہ مصروف رہا۔ سابور کا قتل ۳۵۸ھ میں سابور بن ابو طاہر نے اپنے بھائیوں اور ہوا خواہوں کی مدد سے ابومنصور کو گرفتار کر کے قید کر دیا۔ اور خود تخت نشین ہو گیا۔ مگر سابور کے بھائیوں نے سابور سے بھی مخالفت کی اور انھوں نے حملہ کر کے اپنے چچا ابو منصور کو جیل خانے سے نکال کر پھر تخت پر بٹھا دیا۔ ابومنصور نے تخت نشین ہو کر سابور کو قتل کیا اور اس کے ہوا خواہوں کو جزیرہ اوال کی طرف جلا وطن کر دیا۔ ۳۵۹ھ میں ابو منصور نے وفات پائی۔ ابومنصور کے بعد اس کا بیٹا ابو علی حسن بن احمد ملقب ’’بہ اعظم‘‘ تخت نشین ہوا۔ اس نے تخت نشین ہو کر ابوطاہر کے تمام لڑکوں کو جزیرہ اوال میں جلا وطن کر دیا۔ حسن اعظم قرمطی حسن اعظم قرمطی اپنے خیالات و عقائد میں بہت معتدل تھا۔ اس کو عبیدیین سے کوئی عقیدت نہ تھی۔ اور خلافت عباسیہ سے کوئی نفرت یا عداوت نہ رکھتا تھا۔ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ کہ ابوطاہر نے دمشق پر خراج سالانہ مقرر کر دیا تھا۔ اور جو شخص دمشق کا والی ہوتا تھا۔ وہ خراج کی مقررہ رقم قرامطہ کے بادشاہ کی خدمت میں بھجواتا رہتا تھا۔ تاکہ قرامطہ کی حملہ آوری اور قتل و غارت سے محفوظ رہے۔ اعظم کی تخت نشینی کے وقت دمشق کو جعفر بن فلاح کتامی نے بنی طغج سے فتح کر کے اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ اعظم نے حسب معمول والی دمشق سے خراج سالانہ طلب کیا۔ چونکہ اب تک قرامطہ اور عبیدیہ حکومتوں میں محبت و اتحاد قائم تھا۔ لہٰذا توقع یہ ہو سکتی تھی کہ دمشق جب کہ دولت عبیدیہ میں شامل ہو گیا۔ تو بادشاہ قرامطہ دولت عبیدیہ کے سردار جعفر بن فلاح سے دمشق کا خراج طلب نہ کرے گا۔ مگر اعظم نے سختی سے خراج کا مطالبہ کیا۔ اور جعفر بن فلاح نے خراج کے دینے سے قطعی انکا کیا۔ چنانچہ اعظم نے دمشق کی جانب فوج بھیجی۔ ادھر معز عبیدی کو جو قیروان سے قاہرہ کی جانب آ رہا تھا۔ یہ حال معلوم ہوا تو اس نے اراکین دولت قرامطہ کے نام خط بھیجا کہ تم اعظم کو سمجھائو کہ وہ دمشق سے متعرض نہ ہو۔ ورنہ پھر ہم ابوطاہر کی اولاد کو تخت سلطنت کا وراث قرار دے کر اعظم کی معزولی کا اعلان کر دیں گے۔ اعظم کو جب یہ حال معلوم ہوا۔ تو اس نے بلا تامل عبیدیین کی خلافت سے انکار کر کے علم مخالفت بلند کیا۔ اور اپنے ممالک مقبوضہ میں خلافت عباسیہ کا خطبہ پڑھوایا۔ پہلی فوج جو اعظم نے دمشق کی جانب روانہ کی تھی اس کو جعفر کتامی نے ۳۶۰ھ میں شکست دی۔ اس کے بعد ۳۶۱ھ میں اعظم خود فوج لے کر دمشق کی جانب متوجہ ہوا۔ اور میدان جنگ میں جعفر کتامی کو قتل کر کے دمشق پر قبضہ کر لیا۔ اہل دمشق کو امان دے کر ہر قسم کا انتظام کیا۔ اور فوج لے کر حدود مصر کی طرف بڑھا۔ آئندہ جو واقعات حدود مصر میں پیش آئے۔ اور اعظم کی معز عبیدی سے جو خط و کتابت ہوئی اس کا حال اوپر معز عبیدی کے حالات میں بیان ہو چکا ہے۔ جس زمانے میں اعظم قرمطی شام و مصر کی طرف مصروف تھا۔ اس زمانے میں معز عبیدی نے خطوط بھیج کر ابو طاہر کے بیٹوں کو جو جزیرہ اوال میں نظر بند تھے۔ ترغیب دی کہ تم اس وقت بحرین میں آ کر احساء پر قبضہ کر لو اور خود بادشاہ بن جائو۔ اور ایک اعلان اپنی طرف سے ملک بحرین میں شائع کرا دیا۔ کہ ہم نے اعظم کو معزول کر کے ابو