تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مگر چونکہ محمد بن ابی عامر میں اولوا لعزمی حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ اور وہ مطلق العنان فرماں روا کی حیثیت سے اندلس میں حکومت نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا اس نے پرانی فوج کے ایک حصہ کو موقوف کر دیا۔ باقی کو غیراہم اور مناسب موقع پر مامور کر کے فوج کی قومی جماعت بندیوں کو درہم برہم کر دیا۔ نئی فوج کی تعداد کو بتدریج بڑھا کر زیادہ قواعد دان اور مضبوط بنا لیا۔ اور اس طرح بڑی ہوشیاری کے ساتھ غالب کی قوت کو کمزور کر دیا۔ اس کے بعد غالب کو بھی اس نے بآسانی اپنے راستے سے ہٹا دیا۔ اور کسی قسم کا کوئی فتنہ برپانہ ہوا۔ غالب اور محمد بن ابی عامر کی کسی موقع پر تیز گفتگو ہوئی۔ سخت کلامی کے بعد زبان تیغ سے کام لینے تک نوبت پہنچی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ محمد بن ابی عامر کسی قدر زخمی ہوا اور غالب بھاگ کر عیسائی بادشاہ لیون کے پاس چلا گیا۔ اسی طرح حریفوں سے میدان خالی کرا کر محمد بن ابی عامر نے ملکہ صبح کے اقتدار کو امور سلطنت سے بالکل خارج کر دیا۔ اور ہشام ثانی کو قصر خلافت کے اندر اپنے مقرر کردہ خدام میں گویا نظر بند کر کے بٹھا دیا۔ ہشام قصر خلافت سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ محل کے اندر عیش و عشرت اور لہو و لعب کے تمام سامان اس کے لیے فراہم تھے۔ اور وہ اپنی اسی حالت پر قانع اور مطمئن تھا۔ محمد بن ابی عامر کی پروانگی کے بغیر کوئی شخص ہشام سے مل بھی نہیں سکتا تھا۔ محمد بن ابی عامر نے ہر طرح مضبوط و مطمئن ہو کر‘ فوجی اصلاح و ترتیب کی طرف توجہ کی اور بہت جلد وہ اپنی بہادر اور جرار فوج میں محبوب و ہر دل عزیز بن گیا۔ عیسائیوں سے جہاد اس کے بعد اس نے عیسائیوں پر جہاد کیے اور کی عیسائی ریاستوں کو ممالک محروسہ میں شامل کر کے باقیوں کو ایسی سخت سزائیں دیں کہ عیسائی سلاطین ان کے نام سے لرزنے اور کانپنے لگے اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ خود عیسائی سلاطین اور سرداروں نے اس کی فوج میں شریک ہو کر عیسائی ملکوں کو پامال کیا۔ اور خود عیسائیوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے گرجوں کو ڈھانے اور مسمار کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ مگر محمد بن ابی عامر نے ان کو معبدوں کی بے حرمتی و تباہی سے روک دیا۔ پھر اس نے افریقہ کی طرف توجہ کی۔ ادھر بھی سلطنت اندلس کی حدود کو وسیع کیا۔ غرض اس نے اپنے عہد حکومت میں چھپن (۵۶) جہاد کیے۔ اور ہر ایک لڑائی میں فتح مند ہوا۔ آخری ایّام حکومت میں اس نے اپنا خطاب ’’منصور‘‘ تجویز کیا۔ چنانچہ وہ نہ منصور بلکہ منصور اعظم کے خطاب سے مشہور ہوا۔ وفات ۳۹۴ھ میں ۲۷ سال کی حکومت کے بعد قسطلہ کے آخری جہاد سے واپس آتا ہوا مدینہ سالم میں جس کو میڈینا سلی کہتے ہیں فوت ہو کر مدفون ہوا۔ محمد بن ابی عامر منصور کے عہد پر تبصرہ منصور اعظم کی مثال ایسی سمجھنی چاہیئے جیسے خلافت بغداد میں دیلمی و سلجوقی وغیرہ سلاطین کی حالت تھی۔ کہ خلیفہ برائے نام ہوتا تھا۔ اور اصل حکومت ان سلاطین کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ منصور اعظم نے اپنے آپ کو حاجب یعنی وزیر اعظم ہی کے نام سے موسوم رکھا لیکن باقی تمام امور میں وہ مطلق العنان فرماں روا تھا۔ اس نے مدینہ زاہر کے نام سے ایک قصر قرطبہ کے قریب چند میل کے فاصلے پر تعمیر کرایا تھا۔ جو قلعہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسی میں وہ تمام دفاتر اور خزائن کو لے گیا تھا۔ خطبہ میں ہشام