تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور کچھ نہیں کہ مسلمانوں نے شریعت اسلام اور رسول اللہ e کے اسوئہ حسنہ کی پیروی میں قصور کیا۔ اسلام نے دنیا کی سلطنت و حکومت کو کسی خاص خاندان یا کسی خاص قبیلہ کا حق نہیں بتایا تھا۔ مسلمانوں نے تعلیم اسلامی کے خلاف حکومت میں وراثت کو دخل دیا۔ اور باپ کے بعد بیٹے کو مستحق حکومت سمجھا۔ جیسا کہ دنیا میں پہلے سے رواج ہو گیا تھا اسی رواج کو رسول اللہ نے مٹایا تھا مگر مسلمانوں نے چند روز کے بعد پھر اس لعنت کو اپنے گلے میں ڈال لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نالائق و نااہل لوگ تخت حکومت پر جلوہ فرما ہونے کا موقع پانے لگے۔ قرآن کریم اور شریعت اسلام کی طرف سے غفلت اختیار کرنے کا ایک یہ نتیجہ ہوا کہ مسلمانوں میں نااتفاقی پیدا ہوئی اور آپس میں ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ اس آپس کی پھوٹ نے دشمنوں کو طاقت پہنچائی اور مسلمان برباد ہو گئے۔( اناللٰہ وانا الیہ راجعون ) --- باب : ۶حکومت بنی حمود دولت ادریسیہ کا ذکر اوپر کسی باب میں آ چکا ہے کہ ہارون الرشید عباسی کے عہد خلافت میں ادریس کی مراکش میں خود مختار سلطنت قائم ہو گئی تھی۔ یہ حکومت ادریسیہ بھی اب مراکش سے زائل ہو چکی تھی۔ منصور اعظم یا ابن ابی عامر کے عہد وزارت و حکومت میں مراکش سے جو بربری لوگ اندلس میں آئے ان کے ہمراہ خاندان ادریسیہ کے دو شخص جو دونوں حقیقی بھائی تھے۔ آئے۔ ان دونوں کے نام علی اور قاسم تھے۔ یہ دونوں حمود بن میمون بن احمد بن علی بن عبیداللہ بن عمر بن ادریس کے بیٹے تھے‘ علی بن حمود اور قاسم بن حمود منصور اعظم کی فوج میں نوکر ہو گئے۔ انھوں نے ان لڑائیوں میں جو عیسائیوں کے ساتھ منصور بن ابی عامر کی ہوئیں خوب بہادری دکھائی اور اپنی قابلیت کا اظہار کیا۔ ابن ابی عامر نے خوش ہو کر ان دونوں کو فوجی افسری عطا کی۔ یہ دونوں بربری فوجوں کے اعلیٰ افسر تھے اور بربری لوگ بھی ان کی افسری سے خوش تھے۔ کیونکہ ان کا خاندان ایک عرصہ تک مراکش میں برسر حکومت رہ چکا تھا۔ یہی دونوں بھائی تھے جنہوں نے بربری فوج کو لے کر خاندان ابن ابی عامر کی بیخ کنی کی اور انہیں دونوں نے مستعین اموی کو خلیفہ بنایا مستعین نے قرطبہ میں تخت خلافت پر جلوس کرنے کے بعد علی بن حمود کو طنجہ اور دیگر صوبجات افریقہ کا والی مقرر کر دیا۔ علی بن حمود چونکہ مستعین کی چند روزہ حکومت میں اندلس کے تمام صوبے خود مختار ہو گئے۔ لہٰذا یہ رنگ دیکھ کر علی بن حمود نے بھی طنجہ میں خود مختارانہ حکومت شروع کر دی اور اپنے آپ کو مستعین کی فرما نبرداری سے آزاد کر لیا۔ خیران نامی والی المیرہ کو اپنا شریک کار بنا کر علی بن حمود نے جہازوں کے ذریعہ ساحل اندلس پر اپنی فوج اتار