تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جمع ہو گئے تو خلیفہ کی وفات کا حال سنا کر فائق وجو ذر کی رائے کا اظہار کیا اور کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ اسی وقت مغیرہ بر ادر حکم کو قتل کر دیا جائے۔ تاکہ ہر ایک فتنہ کا سدباب ہو جائے۔ اس کو سن کر سب نے پسند تو کیا مگر اس بے گناہ کے قتل کرنے کی کسی کو جرأت نہ ہوئی۔ آخر محمد بن ابی عامر اٹھا اور اس نے کہا کہ میں اس کام کو انجام دیتا ہوں۔ جب محمد بن ابی عامر مغیرہ کے مکان پر پہنچا تو وہ سو رہا تھا۔ اس کو ابھی تک اپنے بھائی کے فوت ہونے کا حال معلوم نہ ہوا تھا۔ بیدار ہو کر جب اس نے محمد بن ابی عامر سے اس حادثہ کا حال سنا تو بہت غمگین ہوا اور اپنے بھتیجے ہشام کی اطاعت کا اقرار اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی آمادگی ظاہر کی۔ محمد بن ابی عامر نے یہ رنگ دیکھ کر اور مغیرہ کو بالکل بے ضرر محسوس کر کے جعفر مصحفی کے پاس خبر بھیجی کہ مغیرہ ہر طرح ہشام کی فرماں برداری پر آمادہ اور بغاوت و سرکشی کا کوئی خیال نہیں رکھتا۔ ایسی حالت میں زیادہ سے زیادہ اس قدر احتیاط کافی ہے کہ مغیرہ کو قید کر دیا جائے۔ اس کی جان لینے کی کوئی ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔ مگر وزیر جعفر نے فوراً پیغام بھیجا کہ اگر تم اس کام کو نہیں کر سکتے تو میں کسی دوسرے شخص کو بھیجتا ہوں تاکہ وہ بلا توقف مغیرہ کا کام تمام کر دے۔ یہ سن کر محمد بن ابی عامر نے مغیرہ کو بے گناہ قتل کر دیا۔ اور جس کمرہ میں اس کو قتل کیا تھا۔ اس کمرہ کو اسی وقت بند کرا دیا۔ تخت نشینی اس کے بعد خلیفہ ہشام کی رسم تخت نشینی ادا ہوئی۔ فائق و جوذر کو جو اپنے منصوبے میں ناکامی ہوئی۔ انہوں نے اس کے بعد نو عمر خلیفہ کے خلاف لوگوں میں ہلچل پیدا کرنے کی کوشش کی اور مغیرہ کے بے گناہ مارے جانے کی طرف توجہ دلائی اس سے ایک عجیب قسم کی برہمی اور ناراضگی لوگوں میں پیدا ہوئی اور چند ہی روز کے بعد دارلسلطنت قرطبہ میں خبر پہنچی کہ شمالی سرحد کے عیسائی باج گزار حکمرانوں نے اسلامی علاقے میں لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا ہے۔ اور نو عمر خلیفہ کے تخت نشین ہونے سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم جعفر نے اپنی قابلیت کا کوئی بہترین نمونہ نہیں دکھایا اور آپس کی مخالفتوں اور رقابتوں نے بھی اس کو بد حواس اور مجبور سا کر دیا۔ محمد بن عامر بہ حیثیت مشیر آخر ملکہ صبح کے حکم و اشارے سے محمد بن ابی عامر کو وزیر جعفر کے کاموں میں اس کا شریک مقرر کیا گیا چند ہی روز کے اندر محمد بن ابی عامر نے جعفر کو طاق میں بٹھا دیا۔ اور تمام امور سلطنت پر خود حاوی ہو گیا۔ اب اس کے بعد اندلس کی حکومت اسلامیہ کے جو حالات بیان ہونے والے ہیں۔ وہ درحقیقت ابن ابی عامر ہی کے کارنامے ہیں۔ اور اس لیے عنوان میں ہشام کے ساتھ ابن ابی عامر کا بھی نام درج کیا گیا ہے۔ محمد بن ابی عامر کے حالات زندگی محمد بن ابی عامر ۳۵۷ھ میں اندلس کے مقام طرکش میں جہاں اس کا خاندان سکونت پذیر تھا۔ پیدا ہوا اگرچہ اس کا مورث اعلیٰ عبدالملک معافری ایک یمنی سپاہی پیشہ شخص تھا۔ مگر اس کے بعد اس کی اولاد میں زیادہ تر پڑھے لکھے اور ذی علم لوگ ہوتے رہے اور سپہ گری کی طرف اس خاندان کی توجہ کم رہی۔ محمد بن ابی عامر ابھی ماں کے پیٹ ہی میں تھا کہ اس کا باپ حج سے واپس آتا ہوا علاقہ طرابلس الغرب میں فوت ہو گیا تھا۔