تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سال کی عمر میں بتاریخ یکم ربیع الاول ۳۰۰ھ میں تخت نشین ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ طارق و موسیٰ کا فتح کیا ہوا ملک اور عبدالرحمن الداخل کی قائم کی ہوئی سلطنت پاش پاش اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بظاہر عیسائیوں کے قبضہ میں جانے کے لیے ہر قسم کی استعداد پیدا کر چکی تھی لیکن قضاء و قدر کو یہ صورت ابھی پیدا کرنی منظور نہ تھی۔ اس نوجوان سلطان کی تخت نشینی کے وقت اس کے بہت سے چچا جو اس سے عمر و استحقاق میں بڑھے ہوئے تھے موجود تھے۔ لیکن یا تو ان کی پاک باطنی اور نیک نفسی تھی یا انھوں نے ایسی قریب المرگ سلطنت کا بادشاہ بن کر اپنے آپ کو خطرات میں مبتلا کرنا مناسب نہ سمجھا کہ سب نے بخوشی اس نوجوان کو اپنا بادشاہ تسلیم کیا اور تخت نشینی کے وقت کسی قسم کا فتنہ و فساد برپا نہ ہوا۔ سلطان عبدالرحمن ثالث کی تخت نشینی کے وقت اس لیے بھی امن و سکون رہا کہ یہ نوجوان سلطان تھوڑی سی عمر میں اپنے دادا کی زیر نگرانی ایسی اچھی اور اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کر چکا تھا اور ایسی عقل و ذہانت رکھتا تھا کہ بڑے بڑے علماء و فقہاء اس پر رشک کرتے تھے۔ اس کے اخلاق فاضلہ اور حسن خصائل نے اعیان وار کان قرطبہ کو اپنا گرویدہ اور رشتہ داروں کو اپنا ہمدرد وبہی خواہ بنا لیا تھا۔ وہ نہ صرف مجالس علمیہ میں عزت کا مقام رکھتا بلکہ اس زمانہ کی رسم کے موافق فنون سپہ گری سے بھی خوب واقف تھا۔ پہلا حکم تخت سلطنت پر جلوس فرماتے ہی اس نوجوان سلطان نے حکم جاری کیا کہ وہ تمام محصولات جو اس کی پیشرو سلاطین بالخصوص سلطان عبداللہ نے خزانہ سلطانی کو پر کرنے کے لیے رعایا پر لگائے تھے۔ اور جو احکام شرع کے خلاف تھے معاف و موقوف کر دیئے گئے اس اعلان کا اثر نہایت ہی مفید ثابت ہوا۔ رعایا میں اس کی مدح و ثنا ہونے لگی اور دلوں میں اس کی نسبت بہترین توقعات پیدا ہو گئیں۔ اس کے بعد سلطان ثالث نے اعلان شائع کیا کہ جو شخص حکومت کا فرماں بردار بن کر آئے گا اور آئندہ اطاعت پر قائم رہنے کا وعدہ کرئے گا اس کی تمام سابقہ خطائیں معاف کر دی جائیں گی اور گذشتہ بدعنوانیوں پر مطلق توجہ نہ کی جائے گی اور اس معاملہ میں مذہب و عقائد پر کوئی لحاظ نہ کیا جائے گا۔ یعنی دربار سلطانی سے عیسائی‘ یہودی‘ مسلمان سب کے ساتھ یکساں عدل و انصاف کا برتائو ہو گا۔ چونکہ لوگ طائف الملوکی اور خانہ جنگی سے تنگ آ چکے تھے۔ لہٰذا وہ تمام چھوٹے چھوٹے سردار جو قرطبہ سے قریب تھے اور اپنے آپ کو سلطان قرطبہ کی اطاعت و فرماں برداری سے آزاد کر چکے تھے۔ اس اعلان کو سن کر بلا تامل سلطان عبدالرحمن کی خدمت میں فرماں برداری کا اقرار کرنے لگے۔ اس طرح لگان سرکاری شاہی خزانہ میں داخل ہونا شروع ہوا اور اس کمی کی جو ناواجب محصولات کے معاف کرنے سے خزانہ میں ہوئی تھی۔ بخوبی تلافی ہو گئی۔ دو حریف طاقتیں اب صرف دو زبردست اور رقیب طاقتیں باقی رہ گئیں جو نسبتاً قرطبہ سے قریب اور موجب خطر تھیں۔ ایک عمر بن حفصون جو مالقہ ریہ‘ بشتر وغیرہ پر قابض و متصرف تھا اور عبیدیین سے ساز باز کر کے قرطبہ کی سلطنت کو درہم برہم کرنا چاہتا تھا عمر بن حفصون اس لیے بھی زیادہ خطرناک تھا‘ کہ اس کو ایک طرف عبیدیین اور دوسری طرف