تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اپنی پانچ لاکھ سے زیادہ فوج کو جو خوب تازہ دم اور ہر طرح مقابلہ کے لئے تیار تھی لئے ہوئے بہترین مقام پر خیمہ زن تھا۔ تیمور نے اپنی فوج کے لئے شہر انگورہ کے شمال و مغرب میں بہتر سے بہتر موقعہ انتخاب کر لیا تھا۔ اور جہاں جہاں خندق یاد مدمے کی ضرورت تھی تیار کرا چکا تھا۔ بایزید نے تیموری لشکر گاہ کے شمال کی جانب اور یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ میں تیمور کی اس عظیم الشان فوج کو مطلق خاطر میں نہیں لاتا قریب کے ایک مرتفع پہاڑی علاقے میں لے جا کر اول شکار میں مصروف ہوا اور جنگل کا سپاہیوں سے محاصرہ کرا کر چنگیزی طریقہ سے دائرہ کو چھوٹا کرنا اور جنگلی جانوروں کو ایک مرکز کی طرف لانا شروع کرایا جہاں سلطان اور اس کے سردار جانوروں کے شکار میں مصروف تھے۔ اس حکار میں تھکی ماندی فوج کو پانی کے نہ ملنے کی سخت تکلیف برداشت کرنی پڑی اور جو وقت سپاہیوں کو آرام کرنے اور سستانے کے لئے ملنا چاہیئے تھا۔ وہ اس محنت اور تشنگی کے عالم میں بسر ہوا جس سے پانچ ہرار سپاہی پیاس کے مارے مر گئے اور فوج کے دل سے سلطان کی محبت کم ہو گئی۔ اب جو شکار سے اپنے کیمپ کی طرف واپس ہوا تو معلوم ہوا کہ کیمپ پر دشمن نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس کے جس پانی کے چشمہ پر عثمانی لشکر کا گذر ممکن تھا اس چشمہ کو اوپر سے بند لگا کر اور دوسری طرف کو اس کا رخ پھیر کر تیمور کی دور اندیشی اور تجربہ کاری نے پہلے ہی خشک کرا دیا تھا۔ بایزید اگرچہ خود بھی لڑائی میں دیر اور تامل کرنے والا نہ تھا مگر غالباً وہ اپنے کیمپ میں پہنچ کر اور کم از کم فوج کو پانی پینے کی مہلت دینے کے بعد ہی صفوف جنگ تیار کرتا مگر اب وہ تیمور کی ہوشیاری اور چالاکی کے سبب مجبور ہو گیا کہ اپنی فوج کو اسی خراب خستہ حالت میں لئے ہوئے بلاتامل دشمن پر حملہ آور ہوا۔ جنگ انگورہ ۱۹ ذی الحجہ ۸۰۴ھ مطابق ۲۰ جولائی ۱۴۰۲ء کو بایزید و تیمور کی زور آزمائی شروع ہوئی اور مغرب کے وقت جب کہ رات شروع ہو گئی تھی لڑائی کا فیصلہ ہو گیا بایزید کے ساتھ جو فوج تھی اس کی تعداد تو سب نے ایک لاکھ بیس ہزار ہی بتائی ہے۔ لیکن تیمور کی فوج عام طور پر پانچ لاکھ سے زیادہ اور بعض مؤرخین نے آٹھ لاکھ بیان کی ہے بہر حال اگر تیمور کی فوج کو کم سے کم بھی مانا جائے تب بھی وہ بایزید کی فوج سے چوگنی ضرور تھی۔ اور اگر اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ تیمور کی فوج سستائی ہوئی تازہ دم اور بایزید کی فوج تھکی ماندی‘ بھوکی پیاسی تھی تو دونوں کی طاقتوں کے تناسب میں اور بھی زیادہ فرق ہو جاتا ہے۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر بایزید کی فوج کے مغلیہ دستوں نے عین معرکہ جنگ میں جو غداری دکھائی اور عیسائی سرداروں سے جو کمزوری ظہور میں آئی اس کا تصور بایزید اور تیمور کے مقابلہ کو شیر اور بکری کا مقابلہ ثابت کرتا ہے مگر یہ سب کچھ بایزید کی ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ سمجھنا چاہیئے اور اس بات سے ہرگز انکار نہ ہونا چاہیئے کہ جنگ انگورہ میں بایزید کی بیوقوفی اور جاہلانہ جوش کی نمائش ہوئی اور تیمور کی جنگی مآل اندیشی اور دوربینی کا بخوبی اظہار ہوا۔ یہ بالکل ایک جدا بات ہے کہ ہم بایزید کی شکست سے متاسف ہوتے اور تیمور کو اس لڑائی میں خطا کار سمجھتے ہیں کیونکہ اس لڑائی کے نتائج عالم اسلام کے لیے بے حد نقصان رسان برآمد ہوئے اور یورپ جو اسلامی برا عظم بننے والا تھا۔ عیسائی برا عظم رہ گیا۔ (اناللہ و انا الیہ راجعون )