تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے ذریعہ اس مصیبت سے آزادی پائیں‘ موسیٰ بن نصیر نے جولین کے اس اصرار کے بعد اندلس کے حالات اور حکومت کی فوجی طاقت کے متعلق سوالات کئے اور خلیفۂ دمشق ولید بن عبدالملک سے اجازت طلب کرنا ضروری سمجھ کر ایک عریضہ دمشق کی جانب روانہ کیا۔ طریف کی سرکردگی میں ساحل اندلس پر پہلا اسلامی دستہ ادھر جولین کے ہمراہ اپنے ایک سردار طریف یا طارف کو پانچ سو آدمیوں کے ساتھ بھیج دیا کہ جولین کے جہازوں میں سوار ہو کر ساحل اندلس پر اتریں اور وہاں کے حالات سے خود واقفیت حاصل کر کے واپس آئیں‘ چنانچہ طریف اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ۹۲ھ میں اندلس کے ساحل پر یعنی اندلس کی جنوبی راس کے مشرقی کنارے بندرگاہ جزیرہ پر اترا اور معمولی لوٹ مار کے بعد سالماً غانماً واپس آیا‘ تھوڑے ہی دن میں خلیفہ کے دربار سے اجازت آ گئی‘ جس میں کمال حزم و احتیاط کے ملحوظ رکھنے کی تاکید تھی۔ طارق بن زیاد کو اندلس پر حملہ کرنے کا حکم جب موسیٰ بن نصیر کو جولین اور ان کے ہمراہیوں کے بیان کی تصدیق طریف کی زبانی ہو گئی تو اس نے طنجہ کے گورنر طارق بن زیاد کے نام حکم بھیج دیا کہ تم اپنی فوج لے کر اندلس پر چڑھائی کرو‘ طارق اپنا سات ہزار لشکر کشتیوں میں سوار کر کے آبنائے جبل الطارق کے پار اندلس کی جنوبی راس پر جا اترا‘ طارق اپنی سات ہزار فوج کو چار کشتیوں میں سوار کر کے لے گیا تھا‘ اس سے اس زمانے کے جہازوں کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ کتنے بڑے تھے‘ طارق کی فوج میں زیادہ تر بربری نو مسلم اور کمتر عربی لوگ تھے‘ مغیث الرومی نامی ایک مشہور فوجی افسر بھی اس فوج میں شامل تھا‘ جو طارق کا ماتحت اور اس کا نائب سمجھا جاتا تھا۔ طارق ابھی آبنائے کے وسط میں تھا اور ساحل اندلس پر نہیں پہنچا تھا کہ اس پر غنودگی طاری ہوئی اور اس نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ e اس سے فرماتے ہیں تمہارے ہاتھ پر اندلس فتح ہو جائے گا‘ اس کے بعد فوراً طارق کی آنکھ کھل گئی اور اس کو اپنی فتح کا کامل یقین ہو گیا۔ --- باب : ۲ اندلس میںاسلامی حکومت اندلس کے ساحل پر طارق کا ایک عجیب حکم طارق اپنے ہمراہیوں کے ساتھ اندلس کے ساحل پر اترا اور سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جن جہازوں میں سوار ہو کر آئے تھے ان کو آگ لگا کر غرق کر دیا‘ طارق کی یہ حرکت بہت ہی عجیب معلوم ہوتی ہے‘ لیکن اگر ذرا غور و تامل کی نگاہ سے دیکھا جائے تو طارق کی انتہائی بہادری اور قابلیت سپہ سالاری کی ایک زبرست دلیل ہے‘ طارق اس بات