تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شہر سات سال تک ملک اندلس کے درمیانی علاقہ میں خود مختار رہنے کے بعد مفتوح ہوا اور سلطان کی طرف سے یہاں عامل مقرر ہوا‘ اہل مریدہ کی اس بغاوت سے بڑھ کر خطرناک بغاوت اب تک ملک اندلس میں نہ ہوئی تھی۔ چالیس ہزار جنگجو پورے طور پر مسلح اہل شہر کے پاس موجود تھے۔ ان باغیوں کو ہر قسم کی امداد ریاست السیٹریاس و جلیقیہ سے خفیہ طور پر پہنچ رہی تھی۔ آخر ۲۲۰ھ میں جب یہ شہر فتح ہوا اور اس بغاوت کا خاتمہ ہو گیا تو محمود بن عبدالجبار مریدہ سے فرار ہو کر سیدھا ریاست السیٹریاس ہی میں پہنچا اور وہاں اس کو ایک قلعہ دار بنا دیا گیا۔ جہاں وہ پانچ سال تک زندہ رہا۔ عیسائیوں کو مسلمانوں کے باغی بنانے میں دو وجہ سے آسانی ہوئی۔ اول تو یہ کہ اندلس میں عیسائی عورتیں عام طور پر مسلمانوں کے گھروں میں تھیں۔ مسلمان مذہبی آزادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ان عیسائی بیویوں کو تبدیل مذہب کے لیے مجبور نہیں کرتے تھے۔ شمالی عیسائی ریاستوں کو چھوڑ کر کہ ان عیسائیوں کو مسلمانوں سے عداوت و نفرت تھی باقی تمام اندلس کے عیسائی مسلمانوں کے ساتھ نہایت گہرے اور ہمدرانہ تعلقات رکھتے تھے۔ ان عیسائیوں کے ذریعہ شمالی ریاستوں کے عیسائی مسلمانوں میں ہر ایک خیال کی بہ آسانی اشاعت کر سکتے تھے۔ اس مرتبہ یہ مشہور کیا گیا کہ سلطان عبدالرحمن نے زکٰوۃ کے علاوہ جو کوئی اور ٹیکس لگایا ہے‘ ۱؎ یہ ابتدا ہے اس ظلم و ستم کی جو سلطان اپنی رعایا کے تمام اموال پر قبضہ کرنے کے ذریعہ کرنے والا ہے۔ یہ ایک ایسی بات تھی کہ سب سے پہلے اس پر مسلمانوں ہی کو غصہ آتا تھا۔ بڑھتے بڑھتے اس معمولی سی بات نے وہ صورت اختیار کر لی جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ ۱؎ زکوٰۃ کی حیثیت ٹیکس کی نہیں بلکہ یہ تمام صاحب استطاعت مسلمانوں پر فرض ہے۔ خلافت راشدہ کے دور میں مسلمانوں میں زکوٰۃ اور عشر کا نظام نافذ تھا‘ غیر مسلموں سے جزیہ لیا جاتا تھا۔ تب خطہ عرب مخصوص جغرافیائی ماحول یعنی صحرائی علاقے‘ خشک پہاڑوں پر مشتمل تھا۔ نہ کوئی فصلیں تھیں سوائے کھجوروں کے باغات کے اور وہ بھی کہیں کہیں ہوتی تھیں۔ نہ آج کے جدید دور کی طرح صنعتوں‘ معدنی و دیگر قدرتی وسائل کی بھرمار تھی۔ اس کے باوجود عمر فاروقt کے دور میں یہ حال تھا کہ زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ملتا تھا‘ اللہ اکبر! دوسری طرف ٹیکس کا غیر اسلامی نظام ہے جو دور جدید میں یہودیوں نے منظم انداز میں مسلط کیا ہے۔ اس نظام کے تحت ہر فرد ہزاروں جگہ پر ٹیکس ادا کر رہا ہے اور اس سے اس بات کا شعور بھی نہیں۔ دنیا کے ممالک میں ٹیکسوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ اس کے باوجود غربت کا رونا ہے‘ لاکھوں آدمی اب تک صرف عدم روزگار یا بھوک کی بنا پر خود کشی کر چکے ہیں۔ حکومتیں کھربوں ڈالر قرضوں تلے دبی ہوئی ہیں۔ یہ سب کچھ نتیجہ ہے یہودیوں کے عالمی سرمایہ دارانہ اور معاشی نظام کو قبول کر کے اس میدان میں بھی اللہ تعالیٰ سے بغاوت اختیار کرنے کا۔ طیطلہ میں بغاوت مریدہ کی بغاوت چونکہ جلدی فرو نہ ہو سکی تھی اور مسلمان باغیوں کی پامردی نے لشکر شاہی کے لیے مشکلات پیدا کر دی تھیں لہٰذا ملک کے اندر سرکش لوگوں کی ہمتیں پھر چست اور بلند ہونے لگیں اور طیطلہ میں جہاں عیسائی آبادی زیادہ تھی عیسائیوں اور مسلمانوں نے مل کر ہاشم ضراب نامی ایک شخص کی سرداری میں علم بغاوت بلند کر کے وہاں کے عامل کو خارج کر دیا اور خود طیطلہ میں ہر قسم کی مضبوطی کر لی۔ عیسائی ریاست گاتھک مارچ اور ارد گرد کے لوگوں نے ہر قسم کی امداد ہاشم ضراب کو پہنچانی شروع کر دی۔ واقعہ پسند اور بد چلن لوگ جوق در جوق آ کر طیطلہ میں داخل اور باغی فوج میں شامل ہونے لگے۔ طیطلہ پہلے ہی نہایت مضبوط اور ناقابل فتح شہر تھا۔ اب ہاشم نے سامان مدافعت اور افواج کی فراہمی سے اس کو خوب ہی مضبوط بنا لیا۔ یہ