تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
درج تھا۔ ان کتابوں میں بہت ہی کم ایسی کتابیں ہوں گی جن کو خلیفہ حکم نے مطالعہ نہ کیا ہو۔ قریباً ہر ایک پر خلیفہ کے قلم سے لکھے ہوئے حواشی تھے۔ ہر ایک کتاب کے پہلے ورق پر خلیفہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا مصنف اور کتاب کا تام اور مصنف کا شجرہ نسب درج ہوتا تھا۔ خلیفہ حکم کی قوت حافظہ بہت زبردست تھی۔ ساتھ ہی وہ اعلیٰ درجہ کا ذہین و نقاد بھی تھا۔ ہر قسم کی نظم و نثر بلا تکلف لکھتا تھا۔ حکم کی تصنیف فن تاریخ سے اس خلیفہ کو بہت شوق تھا۔ اندلس کی ایک تاریخ اس خلیفہ نے خود لکھی تھی۔ مگر وہ زمانہ کی دست برد سے ضائع ہو گئی۔ روئے زمین کے علماء خواہ وہ کسی قوم اور کسی مذہب اور کسی علم و فن سے تعلق رکھتے ہوں قرطبہ کی طرف کھنچ کھنچ کر چلے آئے تھے۔ غرض کہ خلیفہ حکم کے زمانے میں قرطبہ تمام علوم و فنون کا ایک ہی لانظیر مرکز تھا۔ مشاہیر علماء اور اہل کمال کی قدر دانیاں ابو علی قالی بغدادی مصنف کتاب الامالی عبدالرحمن ثالث کے عہد میں وارد اندلس ہوا تھا۔ سلطان حکم اس بے نظیر عالم کو ایک دم کے لیے اپنے پاس سے جدا نہ کرتا تھا۔ ابوبکر الا رزق جو اپنے زمانے کا مشہور عالم اور سلمہ بن عبدالملک بن مروان کے خاندان سے تھا۔ ۳۴۹ھ میں قرطبہ پہنچا اور ۵۸ سال کی عمر میں ماہ ذیقعدہ ۳۸۵ھ میں فوت ہو کر قرطبہ میں مدفون ہوا۔ خلیفہ حکم اس کی بڑی عزت کرتا تھا۔ اسمٰعیل بن عبدالرحمن بن علی جو ابن زمع کے خاندان سے تھا۔ قاہرہ سے اندلس آیا اور خلیفہ حکم کے علمائے دربار میں شامل ہوا۔ ثقر البغدادی اور قیاس بن عمر وغیرہ مشہور خوش نویس تھے جن کی خلیفہ حکم بڑی قدر کرتا تھا۔ ابو الفرح اصفہانی اور ابوبکر مالکی کے پاس ایک ایک ہزار دینار سرخ خلیفہ نے بھیجے۔ ابو عبداللہ محمد بن عبدون عذری دربار قرطبہ کا اعلیٰ درجہ کا طبیب تھا۔ محمد بن مفرج فقہ اور حدیث کا مشہور عالم تھا۔ ابن مغیث‘ احمد بن عبدالملک۔ ابن ہشام القوی۔ یوسف بن ہارون۔ ابو الولید یونس اور احمد بن سعید ہمدانی مشہور شعراء تھے۔ محمد بن یوسف وراق نے خلیفہ حکم کے حکم سے افریقہ کی تاریخ معہ جغرافیہ لکھی تھی۔ عیسیٰ بن محمد۔ ابوعمر احمد بن فرج۔ یعیش بن سعید خلیفہ حکم کے عہد میں مشہور مورخ اور زبردست عالم تھے جو دربار قرطبہ کی رونق تھے۔ علم نوازی کی ایک مثال خلیفہ حکم کی علم دوستی اور عالم نوازی کی ایک حکایت قابل تذکرہ ہے کہ ایک روز ابو ابراہیم نامی ایک فقیہ مسجد ابوعثمان میں وعظ بیان کر رہا تھا۔ اسی حالت میں شاہی چوبدار آیا۔ اور اس نے ابو ابراہیم سے کہا کہ امیرالمومنین نے آپ کو اسی وقت بلایا ہے اور وہ باہر انتظار کر رہے ہیں۔ ابوابراہیم نے کہا کہ تم امیر المومنین سے کہہ دو کہ میں اس وقت اللہ کے کام میں مصروف ہوں۔ جب تک اس کام سے فارغ نہ ہو لوں نہیں آ سکتا۔ چوبدار اس جواب کو سن کر حیران رہ گیا اور ڈرتے ڈرتے جا کر خلیفہ کی خدمت میں ابو ابراہیم کا جواب عرض کیا۔ خلیفہ حکم نے سن کر چوبدار سے کہا کہ تم جا کر ابو ابراہیم سے کہہ دو کہ میں اس بات کو سن کر بہت خوش ہوا کہ آپ اللہ کے کام میں مصروف ہیں۔ جب اس کام سے فارغ ہو جائیں تو تشریف لائیں۔ میں اس وقت تک دربار میں آپ کا منتظر رہوں گا۔ چوبدار نے یہ پیغام آ کر ابو ابراہیم کو سنایا۔ ابو ابراہیم نے کہا کہ تم جا کر امیر المومنین سے کہہ دو کہ میں بڑھاپے کی وجہ سے گھوڑے پر سوار ہو سکتا ہوں نہ پیدل