تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
الدین لولو حاکم موصل اور سلطان عز الدین سلجوقی حاکم روم نے حاضر ہو کر اظہار اطاعت کیا۔ بروزجمہ ۲۰ رمضان المبارک ۶۵۷ھ کو ہلاکو خان نے کئی نامور سرداروں کو فوج دے کر بطور ہر اول ملک شام کی طرف روانہ کیا۔ نصیبین‘ حران‘ حلب وغیرہ شہروں کو فتح اور ان کے باشندوں کا قتل عام کرتا ہوا دمشق کی جانب پہنچا۔ دمشق کو بھی اسی طرف فتح کیا۔ اور ملک شام پر قابض ہو کر اور وہاں اپنی طرف سے ایک حاکم کسوقا نامی کو مقرر کر کے ہلاکو خان خراسان کی طرف واپس آیا۔ مصری لشکر نے ملک شام پر حملہ کر کے مغلوں کی فوج کو شکست دے کر بھگا دیا۔ اس خبر کو سن کر ہلاکو خان بہت رنجیدہ ہوا اور ارادہ کیا کہ ملک شام پر فوج کشی کر کے مصریوں کو شام سے نکالے۔ مگر اسی اثناء میں منکو خان کے فوت ہونے کی خبر پہنچی۔ اور انھیں ایّام میں ایک اور واقعہ پیش آیا کہ برکہ خان ابن جوجی خان بادشاہ قبچاق اور ہلاکو خان کے درمیان مخالفت اور ناچاقی پیدا ہوئی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے۔ کہ ہلاکو خان کے پاس برکہ خان کا کوئی قریبی رشتہ دار تھا۔ اس کو ہلاکو خان نے قتل کر دیا۔ برکہ خان نے سن کر کہا کہ ہلاکو خان نے خلیفہ بغداد کو قتل کیا اور بلاوجہ لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا دیا۔ میں اس سے ان تمام بے گناہوں کا انتقام لوں گا۔ یہ کہہ کر اس نے فوج روانہ کی۔ ادھر سے ہلاکو خان نے بھی اس کے مقابلہ کو فوج بھیجی۔ ۶۶۰ھ میں جنگ ہوئی۔ اور ہلاکو خان کی فوج نے شکست پائی۔ اس کے بعد لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر ۶۶۱ھ میں ہلاکو خان خود فوج لے کر برکہ خان کے مقابلے پر آیا۔ جنگ عظیم کے بعد برکہ خان کی فوج کو شکست ہوئی۔ اور ہلاکو خان نے فتح پائی۔ مگر چند ہی روز کے بعد برکہ خان نے ہلاکو خان پر حملہ کر کے اس کو شکست فاش دی۔ اس شکست سے ہلاکو خان بہت دل شکستہ ہوا۔ اسی عرصہ میں امیر ایچل نے مراغہ میں وفات پائی۔ جب مغلوں نے ملک شام کو فتح کر لیاتھا تو وہاں قوم فراتاتار کے قبیلوں کو آباد کیا تھا۔ ہلاکو خان کی موت اب برکہ خان سے شکست پانے کے بعد ہلاکو خان نے ایک سردار کو شام کی طرف روانہ کیا کہ وہ فراتاتار کے قبائل کو ہمراہ لے کر آئے تاکہ ان لوگوں کی فوج برکہ خان کے مقابلہ پر روانہ کی جائے۔ وہ سردار ملک شام میں جا کر اور فراتاتار کے لوگوں کو اپنے ہمراہ لے کر ہلاکو خان سے باغی ہو گیا۔ یہ خبر مراغہ میں ہلاکو خان کو پہنچی۔ تو وہ اس قدر غمگین و افسردہ ہوا کہ مرض سکتہ میں مبتلا ہو کر ۶۶۳ھ آخر ماہ ربیع الاول کو فوت ہوا۔ آٹھ سال حکومت کر کے ۴۸ سال کی عمر میں فوت ہوا۔ اس کا دارالحکومت شہر مراغہ تھا۔ اس نے مراغہ میں نصیر الدین طوسی اور دوسرے حکماء کی مدد سے ایک رصدگاہ بنوائی تھی۔ ہلاکو خان نے اپنے بیٹے اباقا خان کو عراق و خراسان وغیرہ کی حکومت دی تھی۔ آذر بائیجان کی حکومت دوسرے بیٹے کو اور دیاربکر و دیار ربیعہ کا حاکم توران سلدوز کو بنایا اور خواجہ شمس الدین محمد جوینی کو وزارت کے عہدے پر مامور کیا تھا۔ شمس الدین جوینی کے بھائی عطاء الملک علائو الدین کو حاکم بغداد بنایا تھا۔ ہلاکو خان کے فوت ہونے پر اس کی تجہیز و تکفین مغلوں کی رسم کے موافق عجیب طرح سے عمل میں آئی یعنی بجائے قبر کے ایک تہ خانہ تیار کیا گیا۔ اس میں ہلاکو خان کی لاش کو رکھ کر چند نوجوان لڑکیوں کو خوب زیور و لباس سے آراستہ و پیراستہ کر کے خدمت گاری کے لئے اس تہ خانہ میں داخل کیا گیا۔ تاکہ وہ ہلاکو خان کی مونس