تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حکومت میں حاصل ہوا جس نے ۵۲۷ء سے ۵۶۵ء تک حکومت کی اس قیصر نے قسطنطنیہ کی تعمیر و رونق میں بہت اضافہ کیا۔ اس شہر پر مختلف قوموں نے مختلف اوقات میں چڑھائیاں کیں مگر وہ عموماً نقصان و بربادی سے محفوظ رہا۔ مسلمانوں نے اول ہی اول عہد بنو امیہ میں اس شہر پر چڑھائی کی اور حضرت ابوایوب انصاریt اسی معرکہ میں شہید ہو کر فصیل شہر کے نیچے مد فون ہوئے۔ اس مرتبہ یہ شہر فتح ہوتے ہوتے رہ گیا۔ عیسائیوں نے کئی مرتبہ چاہا کہ حضرت ابو ایوب انصاریt کی قبر مبارک کو اکھیڑ کر پھینک دیں مگر وہ ہمیشہ مسلمانوں کی ناراضگی کے خوف سے اس ارادہ کو پورا نہ کر سکے۔ سلطان محمد خان ثانی فاتح نے فتح قسطنطنیہ کے بعد حضرت ابوایوب انصاری کے مزار مبارک کے متصل ایک مسجد بنوا دی تھی جو جامع ایوب کے نام سے مشہور ہے۔ خلفاء عباسیہ کے عہد حکومت میں کئی مرتبہ قسطنطنیہ کے فتح کرنے کی تیاریاں ہوئیں مگر ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی امر ایسا مانع ہوا کہ یہ کام ناتمام ہی رہ گیا۔ اس کے بعد ۶۰۰ھ میں جب کہ صیلبی لڑائیوں کی سرگرمیاں بڑے زور شور سے جاری تھیں وینس کی ایک فوج نے قسطنطنیہ کو فتح کر کے لاطینی سلطنت قائم کی جو روما کے پوپ کو مذہبی پیشوا مانتی تھی۔ ساٹھ سال تک یہ حکومت قائم رہی اس کے بعد ۶۶۰ھ میں یونانیوں یعنی مشرقی رومیوں نے پھر قسطنطنیہ کو فتح کر کے اپنی مشرقی حکومت دوبارہ قائم کر لی جو اسی پرانے خمیری عقیدے پر قائم اور پوپ روما کی اطاعت سے آزاد تھی۔ دو سو برس کے بعد سلطان محمد خان فاتح نے اس سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور بجائے ایڈریا نوپل کے قسطنطنیہ عثمانیہ سلطنت کا دارالسلطنت ہوا‘ قسطنطنیہ سوا گیارہ سو سال تک عیسائی حکومت کا دارالسلطنت رہ کر اسلامی حکومت کا دارالسلطنت بنا اور پونے پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ تک اسلامی حکومت و خلافت کا درالسلطنت اور دارالخلافہ رہنے کے بعد ہمارے اس زمانہ میں جب کہ خلافت عثمانیہ کا سلسلہ ختم ہونے پر انگورہ۱؎ ترکوں کی اسلامی جمہوری حکومت کا دارالحکومت قرار پایا قسطنطنیہ۲؎ کی دارالحکومت ہونے کی خصوصیت جاتی رہی تاہم وہ دنیا کا ایک نہایت اہم عظیم الشان شہر اور مسلمانوں کا مایہ ناز مقام ہے۔ سلطان فاتح کے بقیہ کار نامے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سلطان فاتح نے چند روز تک اپنی توجہ قسطنطنیہ کی آبادی اور رونق بڑھانے میں صرف کی‘ لیکن وہ ساتھ ہی یہ بات بھی سوچتا رہا کہ یونان کا جنوبی حصہ جو ایک جزیرہ نما کی صورت میں بحر روم میں چلا گیا ہے‘ تمام و کمال سلطنت عثمانیہ میں شامل ہونا چاہیے‘ تاکہ آئندہ کے لیے بہت سے خرخشے جو اٹلی وغیرہ کی بحری ترک و تاز سے پیدا ہو سکتے ہیں مٹ جائیں۔ لہٰذا فتح قسطنطنیہ سے اگلے سال سلطان فاتح نے جنوبی یونان کی خود مختار چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو فتح کر کے سلطنت عثمانیہ میں شامل کیا اسی جنوبی یونان میں ایک چھوٹی سی ریاست قیصر قسطنطین کی اولاد نے قسطنطنیہ سے فرار ہو کر قائم کی تھی اس فتح کے بعد قیصر قسطنطین کے بعض ارکان خاندان نے جو یہاں موجود تھے اسلام قبول کر لیا تھا اوپر یہ بات بیان ہونے سے رہ گئی تھی‘ کہ جب مسلمانوں کی فوج نے قسطنطنیہ کو فتح کر لیا اور تمام ملاح فتح کی خوشی میں اپنی اپنی کشتیوں کو چھوڑ کر شہر میں داخل ہوئے تو شہر کے عیسائیوں نے جو باہر نکل سکے بندرگاہ میں پہنچ کر ان عثمانی کشتیوں کو جو بندرگاہ میں کھڑی